طیب اردوان کا اسرائیلی صدر سے رابطہ، مسجدِ اقصیٰ میں تشدد کی مذمت

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

طیب اردوان کا اسرائیلی صدر سے رابطہ، مسجدِ اقصیٰ میں تشدد کی مذمت
طیب اردوان کا اسرائیلی صدر سے رابطہ، مسجدِ اقصیٰ میں تشدد کی مذمت

استنبول: ترک صدر رجب طیب اردوان نے اسرائیلی ہم منصب اسحاق ہرزوگ کے ساتھ ٹیلیفونک رابطے میں مسلمانوں کے قبلۂ اول مسجدِ اقصیٰ کے احاطے میں تشدد کی پر زور مذمت کی ہے۔

تفصیلات کے مطابق رجب طیب اردوان نے اسرائیلی صدر اسحاق ہرزوگ سے ٹیلیفونک رابطہ کیا۔ اس دوران مسلم امہ کے قبلۂ اول مسجدِ اقصیٰ میں پر تشدد واقعے پر گفتگو ہوئی۔ ترک صدر نے اسرائیلی ہم منصب کو مسجدِ اقصیٰ کی روحانی حیثیت کو لاحق خطرات سے خبردار کیا۔

یہ بھی پڑھیں:

افغان دارالحکومت کابل میں 3 دھماکے، 6 افراد ہلاک، 20 زخمی ہو گئے

خیال رہے کہ اس سے قبل مسجدِ اقصیٰ کے اندر اور اردگرد اسرائیل فلسطین جھڑپوں میں 170 افراد زخمی ہو گئے جن میں سے زیادہ تر فلسطینی مظاہرین تھے جن کو اسرائیلی سکیورٹی فورسز نے زخمی کی جو  کم و بیش ایک سال بعد مسجدِ اقصیٰ میں پیش آنے والا تشدد کا بڑا واقعہ سمجھا جارہا ہے۔

مقبوضہ فلسطین میں حالیہ دنوں کے دوران کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔ مقبوضہ فلسطین کی جدوجہدِ آزادی میں حصہ لینے والے علیحدگی پسند گروہوں اور اسرائیلی فورسز کے مابین 11 روز تک تنازعہ ہوا۔ واضح رہے کہ مسجدِ اقصیٰ یہودیوں کیلئے پہلا جبکہ مسلمانوں کیلئے مکہ و مدینہ کے بعد تیسرا مقدس ترین مقام ہے۔

منگل کے اوائل میں اسرائیل نے غزہ کی پٹی پر پہلا فضائی حملہ کیا جس کے متعلق اسرائیلی فورسز کا دعویٰ ہے کہ حملہ بلا اشتعال نہیں تھا بلکہ فلسطینی محصور علاقے سے فائر کیے گئے راکٹ کا جواب دیا گیا۔ ترک صدر طیب اردوان کا کہنا ہے کہ مسجدِ اقصیٰ پر جنونی گروہوں نے حملہ کیا تھا۔

اپنے ٹوئٹر پیغام میں صدر رجب طیب اردوان نے کہا کہ غزہ میں کشیدگی سے ترکی کے غم و غصے میں اضافہ ہوا۔ ہر سال بعض بنیاد پرستوں کی وجہ سے ہمیں جو تصاویر دیکھنے کو ملتی ہیں، ضمیر کو ٹھیس پہنچاتی ہیں جس پر پوری اسلامی دنیا جائز ردِ عمل دینے پر مجبور ہوتی ہے۔ 

Related Posts