پاکستان کی ڈرامہ انڈسٹری میں آج کل ایک بھونچال آیا ہوا ہے جسے ہم پہلے عشقِ ممنوع اور میرا سلطان کے نام سے جانتے تھے جس نے آج کل ارطغرل غازی کا لبادہ اوڑھ لیا ہے۔ آپ درست سمجھے، پاکستان میں ترکی سے ترجمہ کیے گئے ڈراموں کا کلچر عام ہو رہا ہے جس سے مقامی فنکار پریشان نظر آتے ہیں۔
حیران کن بات یہ ہے کہ پاکستان اور ترکی دونوں ہی مسلم اور برادر ممالک ہیں اور ارطغرل غازی مبینہ طور پر اسلامی کلچر سے متاثر نظر آتا ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ ارطغرل غازی کو خود ترکی میں اتنی شہرت حاصل نہ ہوسکی جتنی پاکستان میں حاصل ہو رہی ہے اور نوجوان نسل ارطغرل کے ڈائیلاگز کو اپنا اسٹیٹس بناتی دکھائی دیتی ہے؟
ہمارے آج کے موضوع میں صرف یہ ایک سوال نہیں جس کا ہم جواب ڈھونڈنے کی کوشش کر رہے ہیں بلکہ کچھ دیگر سوالات بھی ہیں، مثلاً ترکی اور پاکستان کی ڈرامہ انڈسٹری میں فرق کیا ہے؟ ترک ڈراموں میں ایسا کیا ہوتا ہے کہ وہ پاکستان میں تیزی سے ہٹ ہوجاتے ہیں؟ اور مقامی اداکاروں کو ترکی کے ڈرامے چلائے جانے پر کیا نقصان ہو رہا ہے؟
ترک ڈرامہ انڈسٹری
ترکی دنیا کی ابھرتی ہوئی معیشت ہے جس نے ٹیلی ویژن سیریز پاکستان سمیت دنیا کے دیگر ممالک کو برآمد کرکے اس سے اپنی معیشت کو استحکام پہنچایا۔ میکسیکو اور برازیل کی ٹی وی انڈسٹری کو شکست دے کر اوپر آنے والی ترک ڈرامہ انڈسٹری نے امریکا کے بعد دنیا بھر میں سب سے زیادہ نام پیدا کیا ہے۔
یہ ایک الگ بات ہے کہ ترک ڈرامے 120 منٹ سے لے کر 150 منٹ فی قسط جتنے طویل بھی ہوتے ہیں جبکہ ان میں اسکرپٹ کی گہرائی و گیرائی پر زبردست کام کیا جاتا ہے جس سے ترکی ایشیاء، یورپ، لاطینی امریکا، مڈل ایسٹ اور نارتھ امریکا تک نام کما رہا ہے۔
سن 2017ء میں ترکی ٹی وی نے 35 کروڑ امریکی ڈالر کمائے جس سے ترکی امریکا کے بعد سب سے بڑا ایکسپورٹر قرار دیا جانے لگا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ترک ٹی وی انڈسٹری سن 2023ء تک ایکسپورٹس کے ذریعے 1 ارب امریکی ڈالر سے بھی زیادہ کمانے لگے گی۔
پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری
اگر ہم پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری کی بات کریں تو یہاں ایکسپورٹس پر خاطر خواہ کام نظر نہیں آتا۔ پاکستان ٹیلی ویژن کے ڈرامے ماضی میں بے پناہ مقبولیت حاصل کرتے رہے جبکہ بعد میں آنے والے نجی چینلز کی بھرمار نے پی ٹی وی کی کارکردگی پر بھی اثر ڈالا۔
خاص طور پر ہمسایہ ملک بھارت کے کلچر نے پاکستانی ڈراموں کو بے حد متاثر کیا۔ تاریخی ڈراموں کا عنصر آہستہ آہستہ کم ہونے لگا۔ سن 2013ء میں نجی ٹی وی چینل کے ڈرامے ہم سفر نے مقبولیت کے نئے ریکارڈز قائم کیے۔
ڈرامہ سیریل ہم سفر کو عربی میں ڈب کرنے کے بعد مڈل ایسٹ میں رفیق الروح کے نام سے دیکھا گیا اور یہ مشرقِ وسطیٰ میں سب سے زیادہ دیکھا گیا ڈرامہ بن گیا۔ اس ڈرامے نے مڈل ایسٹ میں وہ مقام حاصل کیا جو آج ارطغرل غازی پاکستان میں حاصل کر رہا ہے۔
اس کے علاوہ ملال، میرا نام یوسف ہے اور زندگی گلزار ہے جیسے ڈراموں کو بھی ڈب کرکے مڈل ایسٹ میں دیکھا گیا۔ ماضی میں پاکستان ٹیلی ویژن کے ڈرامے دیواریں وارث اور جنگل 80ء کی دہائی میں بھارت میں بے حد مقبول ہوئے۔
ترک اور پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری میں بڑا فرق
اس بات سے قطعِ نظر کہ ترکی کی ڈرامہ انڈسٹری کی تاریخ کیا ہے اور اس نے وقت کے کیا کیا اتار چڑھاؤ دیکھے، پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری اس کے سامنے دبتی دکھائی دیتی ہے۔ اس کی مختلف اور متعدد وجوہات ہوسکتی ہیں لیکن سب سے بڑی وجہ ہمیں ایک ہی نظر آتی ہے۔
پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری میں آج ہمیں موضوعات کا فقدان نظر آتا ہے۔ پاکستان ٹیلی ویژن نے ماضی میں ٹیپو سلطان اور بابر سمیت متعدد تاریخی موضوعات کو چھوا اور بہترین ڈرامے پیش کیے جنہیں آج بھی ناظرین کی ایک معقول تعداد سراہتی ہے۔
آج متعدد ٹی وی چینلز کی بھیڑ میں پی ٹی وی کہیں گم ہو کر رہ گیا ہے اور اگر آج کے انٹرٹینمنٹ چینلز دیکھے جائیں تو ہر جگہ ساس بہو کے جھگڑے، محبت کی مثلث اور جادو ٹونے جیسے فرسودہ موضوعات پر کام نظر آتا ہے جس میں وقت کے ساتھ ساتھ عوام کی دلچسپی کم ہوتی جارہی ہے۔
دوسری جانب اگر ہم ترکی کے ڈرامے ارطغرل غازی کی مثال اپنے سامنے رکھیں تو اس ڈرامے کا موضوع محبت بھی ہے اور اسلامی تاریخ بھی، یہ حقیقت اپنی جگہ کہ تاریخ دانوں اور ڈرامہ نگاروں کی لکھی گئی تاریخ الگ الگ حیثیت رکھتی ہیں۔
ارطغرل غازی کی مثال
ارطغرل غازی کوئی ساس بہو کا ڈرامہ نہیں ہے۔ سب سے پہلے یہ ڈرامہ سن 2015ء میں ترکی کے سرکاری ٹی وی چینل ٹی آڑ ٹی 1 پر چلا۔ اس کا پہلا سیزن سن 2015ء میں ہی پاکستان میں ہم نیٹ ورک کے چینل ہم ستارے پر پیش کیا گیا۔
دوسری بار اس میں نئی اردو ڈبنگ کی گئی اور گزشتہ ماہ سے یہ ڈرامہ پی ٹی وی ہوم پر چل رہا ہے۔ارطغرل غازی سلطنتِ عثمانیہ کے بانی عثمان اوّل کے والد پر بنایا گیا ہے جن کا نام ارطغرل تھا جو 1230ء میں پیدا ہوئے اور انہوں نے 51 برس عمر پائی۔
مقبولیت کی وجہ
مجموعی طور پر ارطغرل غازی کی 157 اقساط ہیں اور ہر قسط 2 گھنٹوں پر محیط ہے۔ یہاں فنکاروں کے کام سے لے کر اسکرپٹ تک اور لباس کے چناؤ سے لے کر رنگوں کے امتزاج پر ہر جگہ باریکی سے کام کیا گیا ہے جو آپ کو اپنا گرویدہ بنا لیتا ہے۔
جس شخص کو اسلامی تاریخ پسند ہے وہ ارطغرل غاری کی تعریف کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ارطغرل غازی منگولوں اور صلیبیوں دونوں سے مقابلہ کرتا نظر آتا ہے اور اس کا ایمان، دلیری، شجاعت اور بہادری اپنی مثال آپ ہے۔
ڈائیلاگز کی بات کی جائے تو ارطغرل ابن العربی کے اقوال استعمال کرتا نظر آتا ہے جو 5ویں صدی ہجری کے عالمِ اسلام تھے۔ مثال کے طور پر: ظالم اپنا نام سونے کے حروف سے لکھوالے تب بھی تاریخ میں وہ ایک سیاہ تحریر کہلائے گی اور بڑی فتوحات چھوٹی شکست کے بعد ملتی ہیں۔
کمال صبر کی کوکھ سے پیدا ہوتا ہے۔ اگر کوئی اپنی زبان اور خواہش پر قابو نہ رکھے تو وہ رہنما نہیں بن سکتا۔ جو لوگ جدوجہد کرتے ہیں تقدیر بھی ان سے محبت کرتی ہے۔ اللہ کا حساب کتاب سب کیلئے یکساں ہے۔
یہ ڈائیلاگ جو ارطغرل کے ڈرامے میں استعمال ہو رہے ہیں، ڈرامہ جس کردار کا ذکر کر رہا ہے، خود اس کی تخلیق سے صدیوں پہلے تحریر کیے گئے جن کی بنیاد اسلامی علمائے دین کا سینوں میں مدفون ذخیرہ ہے جسے پاکستانی ڈرامہ نگار کبھی استعمال نہیں کرتے۔
افسوس اس بات کا ہے کہ پاکستانی ڈرامہ نگاروں نے اپنے اسلاف کا یہ سرمایہ کبھی چھو کر بھی نہیں دیکھا جبکہ ترک ڈرامہ نگاروں نے اسے کامیابی کے ساتھ استعمال کیا ہے جس پر وہ داد کے مستحق ہیں۔
پاکستانی فنکاروں کا ردِ عمل اور حقیقت
جو ڈرامہ عوام میں اتنی مقبولیت حاصل کر رہا ہو، اس پر منفی رائے دے کر کوئی بھی فنکار عوام کی نظروں میں گرنا نہیں چاہے گا، تاہم اداکار یاسر حسین نے دو روز قبل کہا کہ پاکستان ٹیلی ویژن کو تاریخی ڈرامے بنا کر فنکاروں کو کام دے کیونکہ لنڈے کے کپڑے اور ترکی کے ڈرامے مقامی انڈسٹری کی تباہی کا باعث بنیں گے۔
ہماری ناقص رائے میں ترکی کے ڈراموں اور لنڈے کے کپڑوں کو ایک ہی ترازو میں رکھ کر تولنا ناانصافی ہے۔ اگر عوام ترکی کے ڈراموں کو پسند کر رہے ہیں تو پاکستانی فنکاروں اور ڈرامہ انڈسٹری کو بھی دیکھنا چاہئے کہ ان میں ایسی کیا بات ہے کہ انہیں پسند کیا جاتا ہے؟ پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری کی قیادت کو دوسروں پر نکتہ چینی کی بجائے اپنے آپ کو بہتر بنانے پر توجہ دینا ہوگی۔ یہی حقیقت ہے!