رواں برس کو الیکشن کا سال کہا جاسکتا ہے جس کیلئے الیکشن کمیشن نے 8فروری کی تاریخ مقرر کی اور عالمی سطح پر نئے ورلڈ آرڈر پر عملدرآمد کی تیاریاں بھی جاری و ساری ہیں۔
پاکستان سمیت دنیا بھر کے 40 ممالک میں کل 70 انتخابات ہونے والے ہیں، توقع کی جارہی ہے کہ ان انتخابات کے عالمی سطح پر ایسے اثرات مرتب ہوں گے جو آئندہ دہائی کے واقعات کو متاثر کرسکتے ہیں۔
انتخابات میں حصہ لینے والی قوموں میں 15 افریقی ممالک، 9 امریکی، 11 ایشیائی، 22 یورپی اور اوشیانا کے 4 ممالک شامل ہیں۔ یورپی یونین اور اقوامِ متحدہ کے ادارے سلامتی کونسل میں بھی انتخابات ہوں گے۔
تاہم چار بڑے انتخابات دنیا بھر کی توجہ اپنی جانب مرکوز کیے ہوئے ہیں جن میں عالمی سطح کی 4 بڑی سیاسی تنظیمیں شامل ہیں اور جہاں 2.3ارب افراد رہائش پذیر ہیں۔ تقریباً 42 ٹریلین ڈالر کا مشترکہ جی ڈی پی بھی ہے۔
مارچ میں روس کے صدارتی انتخابات، اپریل اور مئی میں بھارت کے عام انتخابات، جون اور جولائی میں یورپی یونین کے بلاک وائیڈ انتخابات اور نومبر میں امریکا کے قانون ساز اور صدارتی انتخابات 4 بڑے انتخابات میں شامل ہیں۔
چین اور تائیوان کے کشیدہ تعلقات کے باعث جنوری 2024 میں تائیوان صدارتی انتخابات بھی خاصے دلچسپی کے حامل ہیں۔ اس طرح مختصر مدت میں کشیدگی کی سطح متاثر ہوسکتی ہے اور طویل مدتی خدشات بھی جنم لے سکتے ہیں۔
خصوصاً بھارتی لوک سبھا کے انتخابات کا بے صبری سے انتظار جاری ہے جس میں کم و بیش 1 ارب ووٹرز اپنا حقِ رائے دہی استعمال کریں گے۔ مودی کی زیر قیادت بی جے پی مسلسل تیسری بار اقتدار میں آنے کے خواب دیکھ رہی ہے۔
بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد اپوزیشن کے بائیکاٹ کے باوجود جنوری میں مسلسل چوتھی بار صدر بننے کی تیاری کر رہی ہیں۔ پاکستان کو فروری کے انتخابات سے قبل سیاسی بحران کا بھی سامنا ہے۔
نومبر میں امریکی صدارتی انتخابات مغربی اتحاد اور مشرقِ وسطیٰ کے علاوہ روس کے حوالے سے پالیسیوں پر بھی عالمی میڈیا کی گہری نظر ہے۔ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ اگر ایک بار پھر صدر بنتے ہیں تو اسے عالمی خطرہ سمجھا جائے گا۔
اگرچہ روسی صدر پیوٹن کے متبادل محدود ہیں، تاہم انتخابی حرکیات، احتجاج، تنازعات اور پابندیوں کے مابین عوامی مزاج کی عکاسی مارچ میں ہونے والے روسی انتخابات کو متاثر کرسکتی ہے جو 2024 کے اہم معاملات میں شامل ہے۔