کیا وزیراعلیٰ بزدار جانیوالے ہیں ۔۔۔؟؟؟

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

وزیراعظم عمران خان نے سردار عثمان بزدار کو یہ کہہ کر وزیراعلیٰ  پنجاب نامزدکیا تھا کہ ان کا تعلق جنوبی پنجاب سے ہے اور وہ عام آدمی کی حالت زار کو بخوبی جانتے ہیں اور آج بھی صرف وزیراعظم کے اعتماد کے باعث عثمان بزدار وزیراعلیٰ کے منصب پر موجود ہیں ۔

پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کی سب سے اہم ذمہ داری کیلئے تحریک انصاف نے انتہائی اہم رہنمائوں کی موجودگی میں عثمان بزدار کا انتخاب کیا لیکن اس کے باوجود گزشتہ 14ماہ میں پنجاب میں بزدار انتظامیہ ایک غیریقینی صورتحال سے دوچار نظرآئی۔

وزیراعظم عمران خان نے بیحد اعتماد کے باوجود عثمان بزدار بطور وزیراعلیٰ اپنا فعال کردار کرنے سے قاصر نظرآئے جس کی بنا پر پارٹی میں وزیراعلیٰ پنجاب کی تبدیلی کا مطالبہ ہورہاہے جبکہ گزشتہ دنوں پارٹی کی کور کمیٹی کے اجلاس میں وزیراعلیٰ پنجاب کی کارکردگی کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے عثمان بزدار کی تبدیلی کا مطالبہ کیا گیا۔

اس کے باوجود وزیر اعظم عمران خان وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کا دفاعی حصار بنے ہوئے ہیں،اس دوران انہوں نے نہ صرف اپنی جماعت کی تنقید برداشت کی ہے بلکہ عسکری حلقوں، افسرشاہی، میڈیا اور اپوزیشن کے شدید ترین دباو کو ابھی تک برداشت کیا ہوا ہے۔

گزشتہ ایک برس سے عثمان بزدار اپنی کرسی بچانے کی جدوجہد میں لگے ہوئے ہیں، نہ صرف تحریک انصاف بلکہ اتحادی جماعتوں کے درجنوں اراکین پنجاب اسمبلی وزیر اعلی بننے کی مہم چلا رہے ہیں ایسے میں وزیراعلیٰ کے پاس اختیارات کس حد تک قابل استعمال ہیں۔

ایسے میں عثمان بزدار کی حکومتی گرفت نہ تو مضبوط ہو سکتی ہے اور نہ ہی اس صورتحال میں عثمان بزدار کی کارکردگی کو پرکھا جا سکتا ہے۔

میڈیا اور اپوزیشن کی شدید تنقید کا شکار وزیر اعلیٰ پنجاب ذاتی حیثیت میں بہتر کام کر رہے ہیں لیکن انہیں اصل مسئلہ اپنی کابینہ کی ناقص کارکردگی کا درپیش ہے اور کابینہ کے کپتان ہونے کی حیثیت سے نکمے وزراء کی کارکردگی بھی ان کے کھاتے میں ڈال دی جاتی ہے۔

اس وقت پنجاب کابینہ کے کئی ایسے وزراء ہیں جن کو اپنی کارکردگی بہتر بنانے کی اشد اور ہنگامی ضرورت ہے۔

وزیراعلیٰ عثمان بزدار کا مقابلہ ان کے پیشرو شہبازشریف سے کیا جاتا ہے جو کہ ایک متحرک وزیراعلیٰ تھے اور حقیقی معنوں میں پنجاب کے وزیراعلیٰ کے فرائض انہوں نے بلاشبہ قابل تعریف انداز میں چلائے۔

تاہم ان کو بیورو کریسی کو کنٹرول کرنا آتا تھا اسی لئے انہوں نے پنجاب میں کئی اہم منصوبے مکمل کئے جبکہ نظام کو چلانے کیلئے انہوں نے پولیس وانتظامیہ میں زیادہ اصلاحات کرنے کی کوشش نہیں کی کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ایک حد سے زیادہ اصلاحات خود ان کیلئے نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہیں۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اتحادی حکومت کی مشکلات اور مجبوریاں عمران خان کو زیادہ دیر تک کابینہ میں ردوبدل کرنے سے نہیں روک سکتیں۔ اس لئے وزراء کو اپنی کارکردگی بہتر بنانے پر توجہ دینی چاہئے۔

عثمان بزدار کو اب حکومتی امور کی سمجھ آ چکی ہے اس لئے اپنی آخری لائف لائن کو استعمال کرتے ہوئے انہیں ثابت کرنا ہوگا کہ وہ یہ استعداد رکھتے ہیں کہ پرفارم کر سکیں اور اپنے مخالفین سے نمٹ سکیں۔

Related Posts