یوکرین میں پھنسے پاکستانیوں کی مشکلات

مقبول خبریں

کالمز

zia
امریکا کا یومِ قیامت طیارہ حرکت میں آگیا۔ دنیا پر خوف طاری
Firestorm in the Middle East: Global Stakes on Exploding Frontlines
مشرق وسطیٰ میں آگ و خون کا کھیل: عالمی امن کیلئے خطرہ
zia-2
آٹا 5560 روپے کا ایک کلو!

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

روس کی جانب سے یوکرین پر حملے کے بعد یوکرین میں پھنسے ہوئے ہزاروں پاکستانی طلبا اور شہری حکومت سے مدد کی امید لگائے ہوئے ہیںجبکہ پاکستانی سفارتخانے کا دعویٰ ہے کہ وہ شہریوں کو تلاش کرنے اور انہیں جنگ زدہ علاقے سے بچانے کے لیے بھرپور کوششیں کر رہا ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق یوکرین میں 3000پاکستانی شہری اور 1500کے قریب طلبا موجود ہیں جنہیں نکالا جا رہا ہے۔ یہ ایک بہت بڑا لاجسٹک چیلنج ہے کیونکہ یوکرین نے اپنی فضائی حدود تمام پروازوں کے لیے بند کر دی ہیں اور شہریوں کو انخلا کے لیے پڑوسی ممالک جیسے پولینڈ یا رومانیہ کا سفر کرنا پڑرہاہے۔ پی آئی اے نے انخلا کیلئے دو پروازیں بھیجنا تھیں لیکن وہ منسوخ کر دی گئی ہیں۔

یوکرین میں پاکستانی ہی نہیں بلکہ بھارتی اور عرب شہری بھی جنگ سے متاثرہ علاقوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر نے یا تو یوکرینی شہریوں سے شادی ، تعلیم یا تشدد سے بھاگ کر پناہ کی غرض سے یوکرین گئے۔ بہت سے لوگ حملے سے پہلے وطن واپس آ چکے ہیں جنہوں نے خطرات کو سنجیدہ نہیں لیا اب وہ مدد کے منتظر ہیں۔

محصور شہریوں کو ان کو نکالنے کی کوششوں کے بارے میں متضاد اطلاعات ہیں۔ کچھ طلبا نے حکومت کی کوششوں کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب وہ انخلا کے مقامات تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے تو سفارت خانے کے اہلکاروں نے انہیں مدد فراہم کی۔

دوسرے دعوے میں محصورین کا کہنا ہے ک ہحکومت کو مزید کچھ کرنے کی ضرورت ہے اور انہیں یوکرین چھوڑنے میں مدد کرنے کی ضرورت ہے اور یہاں تک کہ انہیں مکمل طور پر بے یارومددگار چھوڑنے کا الزام لگایا گیا ہے۔

سرحدی چوکیوں پر مبینہ طور پر ہراساں کیے جانے کی بھی اطلاعات ہیں۔ کچھ طلبا نے دعویٰ کیا کہ انہیں پولینڈ کی سرحدوں پر محافظوں نے ہراساں کیا اور تشدد کا نشانہ بنایا ۔

ایسی اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں کہ کچھ لوگوں نے جرمنی جیسے دیگر یورپی ممالک کاراستہ اختیارکیا ہے۔ سرحدوں پر لمبی قطاریں ہیں کیونکہ ہزاروں لوگ تباہی سے بھاگ رہے ہیں۔

خدشہ ہے کہ تنازعہ مہاجرین کے بحران کو جنم دے سکتا ہے۔ اقوام متحدہ کا اندازہ ہے کہ 3لاکھ سے زیادہ لوگ پہلے ہی ملک چھوڑ چکے ہیں۔ افراتفری کے درمیان سفارت خانوں پر اپنے شہریوں کی حفاظت کی بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔

اس وقت انسانی جانوں کے ضیاع کو روکنے کیلئے یورپی ممالک کو غیر ملکی شہریوں کو ان کی آبائی منزل تک جانے میں مدد کرنے کے لیے ویزا کی شرائط ختم کرنے اور سرحدی کنٹرول کو آسان کرنے کی ضرورت ہے جبکہ چیلنجوں کے باوجود حکومت پاکستان کو تمام شہریوں کی بحفاظت وطن واپسی کو یقینی بنانے کے لیے سفارتی کوششیں تیز کرنے کی ضرورت ہے۔

Related Posts