امریکا صہیونیوں کی ناجائز آباد کاری پر واضح موقف اختیار کرے، فلسطینی مقتدرہ

مقبول خبریں

کالمز

Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟
Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

فلسطینی اتھارٹی کی وزارت خارجہ نے گزشتہ شب امریکا سے مطالبہ کیا ہے کہ صیہونی کالونیوں کی ناجائز تعمیر کو روکنے کے لئے ایک واضح موقف اپنائے۔

واضح رہے کہ بین الاقوامی قوانین کے بر خلاف اسرائیل کا منصوبہ ہے کہ مغربی کنارے کے مقبوضہ حصے پر 4000 نئے آپارٹمنٹ تعمیر کرے۔ تین امریکی و صیہونی حکام نے ایک نیوز ویب سے بات کرتے ہوئے خبر دی کہ تل ابیب نے امریکہ کو بتایا ہے کہ رواں مہینے اسرائیل مغربی کنارے میں ہزاروں رہائشی یونٹ والی ایک نئی بستی بنانے کا ارادہ رکھتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

مودی سرکار نے جیل میں قید کشمیری حریت لیڈر کی جائیداد قرق کرلی

اس خبر پر ردعمل دیتے ہوئے فلسطینی اتھارٹی کی وزارت خارجہ کا کہنا تھا کہ یہ اقدام ایک جرم، بین الاقوامی قوانین و قراردادوں کی خلاف ورزی اور مغربی کنارے کو اسرائیل میں شامل کرنے کا باضابطہ اصرار ہے۔ رام‌ الله (فلسطینی شہر، جہاں فلسطینی مقتدرہ کا ہیڈکوارٹر قائم ہے) نے اشارہ کیا کہ وہ تل ابیب کے نئے رہائشی یونٹوں کی تعمیر کے ارادے اور امریکہ کو اس بات کی اطلاع دینے کے بارے میں صہیونی میڈیا کی خطرناک رپورٹس پر تشویش میں مبتلا ہے۔

فلسطینی اتھارٹی کی وزارت خارجہ نے مزید کہا کہ یہ اقدام امریکی حکومت اور دو ریاستی حل کے حوالے سے واشنگٹن کے موقف کا سنگین امتحان ہے۔

اگرچہ عالمی برادری کا ایک بڑا حصہ مغربی کنارے میں صیہونی بستیوں کی تعمیر کو ناجائز سمجھتا ہے لیکن کبھی بھی بین الاقوامی اداروں نے عملی طور پر اسرائیل کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھایا۔

اوسلو معاہدے کے مطابق فلسطین کا مغربی کنارہ تین حصوں میں تقسیم کر دیا گیا۔  جس کے مطابق خطہ “A” مکمل طور پر فلسطینیوں کے کنٹرول میں ہے۔ علاقہ “B” صیہونی حکومت کے سیکورٹی اور فلسطینیوں کے انتظامی کنٹرول میں تھا۔ جب کہ علاقہ “C” صیہونی حکومت کے سول، انتظامی اور سیکورٹی کنٹرول میں ہے۔ اس میں مغربی کنارے کا 60% حصہ شامل ہے۔

Related Posts