کراچی: وفاقی وزارت تعلیم کی جانب سے چانسلر جامعہ اردو ڈاکٹرعارف علوی کی منظوری کے بعد دہری شہریت کے حامل پروفیسر ڈاکٹر اطہرعطا کو جامعہ اردو کا مستقل وائس چانسلر تعینات کردیا گیا۔
دوسری جانب جامعہ اردو کے ڈین آف سائنس پروفیسر ڈاکٹر محمد زاہد کی جانب سے سرچ کمیٹی کی جعل سازی اور گمراہ کن معلومات کو عدالت میں چیلنج بھی کیاجاچکا ہے جس کی سماعت گزشتہ روز سندھ ہائی کورٹ میں ہوئی جس میں سرچ کمیٹی کے وکیل انور منصور نے عدالت میں دستاویزات نہ ہونے کا عذر پیش کیا جس کی وجہ سے اگلی سماعت 24فروری کو رکھی گئی ہے۔
ڈاکٹر محمد زاہد نے 5549/2021کے تحت سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا جس میں انہوں نے موقف اختیار کیا کہ جامعہ اردو میں مستقل وائس چانسلر کی تعیناتی کے لئے دیئے گئے اشتہار کے برعکس امیدواروں کو شارٹ لسٹ کیا گیا تھا۔
انہوں نے عدالت کو بتایا تھا کہ سرچ کمیٹی نے تین نام فائنل کرکے چانسلر کوبھیجے تھے جن میں پہلے نمبر پر آئی بی اے یونیورسٹی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر شاہد قریشی،دوسرے نمبر دہری شہریت کے حامل ڈاکٹر اطہرعطا اور تیسرے نمبر پر ظفر اللہ قریشی شامل ہیں۔
بعدازاں ہائر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے عدالت میں ڈاکٹر زاہد کے موقف کو درست ثابت کرتے ہوئے ایک رپورٹ جمع کرائی گئی جس میں بتایا گیا کہ ڈاکٹر شاہد قریشی کے ہائر ایجوکیشن کمیشن کے مستند مجلات میں صرف 9تحقیقی پیپر شائع ہوئے ہیں اورڈاکٹر ظفر اللہ قریشی کے کل 7تحقیقی پیپر شائع ہوئے ہیں جبکہ سرچ کمیٹی کے اشتہار کے مطابق15تحقیقی پیپرہونے ضروری تھے۔
ڈاکٹر محمد زاہد نے اپنی درخواست میں عدالت سے استدعا کی تھی کہ سرچ کمیٹی نے جامعہ کے چانسلر کو 3 کا پینل بھیجنے کے بجائے اشتہار کے مطابق اول اور تیسرے نمبر کے امیدواروں کو شامل کرکے 3 امیدواروں کا گمراہ کن پینل بھیجا تھا جس کی وجہ سے سرچ کمیٹی متنازعہ ہو گئی اور اس کی بھیجی گئی لسٹ ادھوری قرار دی جائے کیوں کہ پہلے اور تیسرے نمبر کے امیدوار انٹرویو کے لئے شارٹ لسٹ ہی نہیں ہو سکتے۔
واضح رہے کہ ڈاکٹر محمد زاہد کا کیس عدالت میں زیر سماعت ہونے کی وجہ سے ایوان صدر سے پہلے نمبر کے امیدوار ڈاکٹر شاہد قریشی کا وائس چانسلر شپ کا نوٹی فکیشن جاری ہونے کے باوجود انہوں نے جوائن کرنے سے انکار کردیا تھا کیوں کہ معاملہ عدالت میں چلے جانے کے بعد عدالت کی جانب سے کسی بھی ممکنہ مخالف فیصلے کی وجہ سے انہوں نے جوائن ہی نہیں کیا۔
معلوم رہے کہ جامعہ اردو کے سابق مستقل وائس چانسلر میری ٹوریس پروفیسر ڈاکٹر الطاف حسین بھی اسی طرح کی معمولی غلطی کی وجہ سے وائس چانسلر شپ سے ہٹائے گئے تھے۔
سپریم کورٹ نے انہیں اشتہار کی ایک شرط پر پورا نہ اترنے کی وجہ سے وائس چانسلر شپ سے ہٹا دیا تھا، اب بھی صدر مملکت و چانسلر جامعہ اردو کو بھیجے گئے پینل میں دو امیدوار اشتہار کے برعکس پینل میں شامل کئے گئے جس کی وجہ سے سرچ کمیٹی متنازعہ ہو گئی ہے۔
واضح رہے کہ ڈاکٹر محمد زاہد کی آئینی پٹیشن نمبر 5549/2021کی پہلی سماعت 16فروری کو ہوئی تھی، جس کے بعد 17فروری کو سماعت ہونی تھی جس پر سرچ کمیٹی کے وکیل انور منصور بیماری کی وجہ سے پیش ہی نہیں ہوئے، جس کے بعد اگلی سماعت 21فروری کو ہوئی جس میں فریقین نے دلائل دیئے، جس میں سرچ کمیٹی کے وکیل انور منصور نے بعض دستاویزات نہ ہونے کا عذر پیش کیا جس کی وجہ سے عدالت نے 24فروری کوسماعت مقرر کرلی ہے۔
ماہرین تعلیم کا کہنا ہے کہ وزارت تعلیم کو ڈاکٹر اطہرعطا کا نوٹی فکیشن عجلت میں جاری کرنے کے بجائے عدالت کے فیصلے کاانتظار کرنا چاہئے تھا کیوں کہ عدالت پٹیشن نمبر 5549/2021 کی سماعت تیزی کے ساتھ دیکر کیس کومکمل کرنے کی کوشش میں ہے، سرچ کمیٹی کی ناقص کارکردگی اور وزارت تعلیم کا عجلت میں نوٹی فکیشن جاری کرنے کی وجہ سے جامعہ اردو ایک بار پھر انتظامی بحران کا شکار ہو سکتی ہے۔
مزید پڑھیں: جامعہ کراچی کا 30لاکھ کا نادہندہ اسسٹنٹ پروفیسر دہری شہریت لیکر نیوز ی لینڈ فرار