سابق صدر پرویز مشرف کا دورِ اقتدار، آمریت اور استحصال سے لے کر آزادی تک

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

سابق صدر پرویز مشرف کا دورِ اقتدار، آمریت اور استحصال سے لے کر آزادی تک
سابق صدر پرویز مشرف کا دورِ اقتدار، آمریت اور استحصال سے لے کر آزادی تک

سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کا دورِ اقتدار جمہوریت پسندوں کی نظر میں وہ دورِ آمریت ہے جس کے دوران عوام کا استحصال ہوا تاہم یہ حقیقت بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ میڈیا کو جو آزادی مشرف کے دور میں حاصل ہوئی، اِس سے قبل کبھی پاکستانی تاریخ میں حاصل نہیں ہوسکی۔

آج سے ٹھیک 12 سال قبل یعنی 18 اگست 2008ء میں سابق آرمی چیف اور صدرِ پاکستان جنرل (ر) پرویز مشرف نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا جن کے بعد سے ملک میں جمہوریت کے نئے دور کا آغاز ہوا جس کے دوران 2008ء سے لے کر آج تک عوام کا استحصال کہیں رُکتا ہوا نظر نہیں آتا۔

آرمی چیف پرویز مشرف صدر کیسے بنے؟

سن 1999ء میں 12 اکتوبر کے روز اُس وقت کے وزیرِ اعظم میاں محمد نواز شریف نے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کو معطل کرکے ان کی جگہ آئی ایس آئی چیف جنرل خواجہ ضیاء الدین کو نیا آرمی چیف مقرر کرنے کی کوشش کی۔

پاک فوج عملاً ملک کے انتظامی سربراہ یعنی وزیرِ اعظم کے ماتحت ہوتی ہے اور وزیرِ اعظم کسی بھی آرمی چیف کو برطرف کرنے کا اختیار رکھتا ہے لیکن نواز شریف کا یہ اقدام فوج کیلئے قابلِ قبول نہیں تھا۔

اس کی وجہ یہ تھی کہ سابق آرمی چیف جنرل (ر) پرویز مشرف کو عہدے سے ہٹانے کی کوشش اس وقت کی گئی جب وہ سری لنکا کے سرکاری دورے سے واپس وطن آرہے تھے۔

کمرشل طیارے کے ذریعے وطن واپس آنے والے جنرل (ر) پرویز مشرف کی برطرفی کو پاک فوج نے قبول نہ کیا جس کے بعد پرویز مشرف اسلام آباد پہنچ گئے اور نواز شریف کو اقتدار سے محروم کردیا۔

وزیرِ اعظم نواز شریف کو معزول کرنے کے ساتھ سابق آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے ان کے خلاف مختلف  الزامات کے تحت ایک کیس تیار کیا۔ پاکستان میں ایمرجنسی کا نفاذ عمل میں لایا گیا۔

جلد ہی جنرل (ر) پرویز مشرف چیف ایگزیکٹو آف پاکستان کہلانے لگے اور قوم سے وعدہ کیا کہ ہم 3 سال کے اندر اندر الیکشن کروائیں گے تاکہ جمہوریت دوبارہ پٹڑی پر واپس لائی جاسکے۔

کچھ قیاس آرائیاں یہ بھی کہتی ہیں کہ جنرل پرویز مشرف کو عہدے سے ہٹانے کا نواز شریف کا فیصلہ بعد میں آیا جبکہ پرویز مشرف اس سے قبل ہی نواز شریف کو اقتدار سے محروم کرنے کیلئے پلان تیار کرچکے تھے۔ 

ورلڈ ٹریڈ سینٹر کا واقعہ اور پاکستان کا فیصلہ

امریکی ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر 11 ستمبر 2001ء میں دہشت گردی ہوئی جس کے 2 روز بعد ہی امریکی سفیر ونڈی چیمبر لین کے ذریعے پاکستانی حکومت کے سامنے امریکا نے 7 مطالبات رکھنے کے بعد فیصلہ طلب کیا۔

یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ جنرل پرویز مشرف جنگوں کا وسیع تجربہ رکھنے کے باوجود موجودہ سیاسی قیادت کی رائے کے مطابق یہاں مار کھا گئے اور امریکی مطالبات کو فوراً تسلیم کیا جس کے بعد خونریز واقعات شروع ہوئے۔

گزشتہ 30 سال سے پاکستان افغانستان میں امن کے قیام کی پالیسی پر عمل پیرا تھا جس سے پرویز مشرف کے فیصلے کے بعد پاکستان کو پیچھے ہٹنا پڑا اور قوم امریکی جنگ کے مہرے کے طور پر استعمال ہونے لگی۔

ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے کے بعد امریکی قیادت کا پاکستان سمیت ہر ملک سے یہی مطالبہ تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں یا تو ہمارا ساتھ دو یا پھر ہم سے جنگ کیلئے تیار ہوجاؤ اور ہم تمہیں پتھر کے زمانے میں پھینک دیں گے۔ 

درجنوں پاکستانی شہری امریکا کے حوالے 

دہشت گردی کے خلاف جنگ  کے دوران پاکستان میں کم و بیش 689 افراد گرفتار ہوئے جن میں سے 369 ملزمان کو امریکا کے حوالے کردیا گیا جس کا خود جنرل پرویز مشرف نے اِن دی لائن آف فائر نامی کتاب میں اعتراف کیا۔

دورانِ اعتراف جنرل پرویز مشرف نے مین ہنٹ نامی مضمون کے صفحہ 237 پر تحریر کیا کہ ہمیں امریکا نے لاکھوں ڈالرز دئیے جن کے عوض ہم نے ملزمان کو ان کے حوالے کیا۔

آج تک ہم جس عافیہ صدیقی کی بات کرتے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ ان عام لوگوں کی اکثریت بھی ان ہی لوگوں میں شامل تھی جو افغانستان اپنے ذاتی یا فلاحی کام سے گئے جنہیں بعد ازاں امریکا نے بد ترین تشدد کا نشانہ بنایا۔ 

معاشی پالیسی 

معاشی اعتبار سے جنرل (ر) پرویز مشرف کا دور پیپلز پارٹی، ن لیگ اور موجودہ تحریکِ انصاف کی حکومت سے بھی بہتر سمجھا جاتا ہے جس کی وجہ آئی ایم ایف پر کنٹرول تھا۔

سن 1990ء سے حکومتِ پاکستان نے عالمی مالیاتی فنڈ سے جو قرضے لیے وہ ادا نہ کیے جاسکے کیونکہ آئی ایم ایف نے سخت شرائط عائد کررکھی تھیں تاہم  مشرف حکومت نے جو بھی قرضے لیے وہ ادا بھی کردئیے گئے۔

جنرل (ر) پرویز مشرف کے مطابق ضیاء الحق کے دورِ حکومت سے لے کر 1999ء تک جمہوری حکومتوں نے 1200 ارب روپے ترقیاتی منصوبوں پر خرچ تو کیے لیکن یہ ترقی کہیں نظر نہیں آتی۔ ہم ملک کو مشکلات سے نکالیں گے۔

مشرف حکومت پر سنگین الزامات

یوں تو جنرل پرویز مشرف کی حکومت پر ہر سال نت نئے الزامات لگتے رہے لیکن مشرف دور کے سنگین ترین الزامات میں سے اہم الزام حدود آرڈیننس میں ترمیم ہے جس کا تعلق اسلامی شریعت سے ہے۔

مخلوط میراتھن ریس کا الزام بھی مشرف حکومت پر عائد ہے یعنی خواتین اور مردوں کو میراتھن ریس میں ایک ساتھ دوڑنے کی اجازت دی گئی جس سے اسلامی اقدار مجروح ہوئیں۔

جامعہ حفصہ اور لال مسجد آپریشن بھی پرویز مشرف دور کے اہم اور سنگین ترین الزامات میں سے ایک ہے۔ جولائی 2007ء میں لال مسجد میں رینجرز اور پولیس کی کارروائی کے دوران تقریباً 100 سے زائد افراد جان سے گئے۔

متعدد افراد لال مسجد آپریشن میں زخمی بھی ہوئے، بہرحال لال مسجد آپریشن میں مشرف حکومت کی طرف سے اس قدر سخت کارروائی کی توقع کسی کو بھی نہیں تھی۔

این آر او جسے قومی مفاہمتی آرڈیننس بھی کہا جاتا ہے، یہ بھی مشرف حکومت میں سامنے آیا۔ نواب اکبر بگٹی کو بلوچستان آپریشن میں قتل کیا گیا۔ قومی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو بھی نظر بندی سہنا پڑی۔

اس کے علاوہ اعتماد سازی کے نام پر بھارت سے پینگیں بڑھانا اور ثقافتی روابط کے نام پر مسئلۂ کشمیر سے روگردانی جیسے سنگین الزامات بھی لگتے رہے۔ یہ الزام بھی لگا کہ پرویز مشرف کے درِپردہ اسرائیل سے روابط ہیں تاہم یہ الزامات ثابت کرنے کیلئے کبھی عدالت نہ لائے جاسکے۔ 

جنرل مشرف نے استعفیٰ کیوں دیا؟

سن 2007ء میں جنرل پرویز مشرف نے چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری کو ان کے عہدے سے معزول کردیا جس کے خلاف مظاہرین نے ملک میں حکومت کے خلاف طوفان کھڑا کردیا۔

لال مسجد واقعے کے بعد پاکستان تحریکِ طالبان معرضِ وجود میں آئی اور پاکستان میں مسلح بم حملے شروع ہو گئے جن میں لگ بھگ ہزاروں کی تعداد میں عوام لقمۂ اجل بن گئے۔

ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ کے باوجود بھی مسائل حل نہ ہوئے۔ سن 2008ء کی ابتداء میں مشرف کی حمایت یافتہ سیاسی جماعت پارلیمانی انتخابات نہ جیت سکی۔

اگر اب جنرل مشرف استعفیٰ نہ دیتے تو مواخذہ ہوسکتا تھا جس سے بچنے کیلئے سابق صدر نے اپنا عہدہ چھوڑا اور پاکستان سے باہر چلے گئے۔انہیں پھانسی کی سزا بھی ان کی  غیر موجودگی میں سنائی گئی جس پر پاک فوج سمیت ملک کے زیادہ تر رہنماؤں نے افسوس کا اظہار کیا۔ 

Related Posts