آئی ایم ایف نے حال ہی میں بیوروکریسی کی نااہلی کو پاکستان میں کاروبار میں سب سے بڑی رکاوٹ کے طور پر اجاگر کیا ہے جبکہ وزیر اعظم نے نظام میں خرابیوں کی وجہ سے وعدے کے مطابق تبدیلی لانے میں ناکامی کا اعتراف بھی کیا ہے کیونکہ وزارتیں مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں ناکام رہی ہیں۔
ایک فلاحی ریاست کا تصور مساوی مواقع، دولت کی تقسیم اور عوامی ذمہ داری کے اصولوں کے مطابق اپنے شہریوں کی معاشی اور سماجی بہبود کا تحفظ کرتا ہے۔
وزیراعظم حکومت کے قیام سے ریاست مدینہ کے اصولوں پر مبنی فلاحی ریاست کے قیام پر زور دیتے رہے ہیں تاہم اس کے لیے ایک قابل اور جوابدہ بیوروکریسی کی ضرورت ہے جو انقلابی تبدیلیوں کو جذب کر سکے۔
بیوروکریسی کی نااہلی پرسوال پہلی بار نہیں اٹھایا گیا بلکہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان میں بیوروکریسی کو بے حد بدعنوان مانا جاتا ہے۔ بیوروکریسی کو عوام کے لیے پالیسی فیصلے لینے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے لیکن اس میں قوت ارادی کی کمی ہے۔
بھرتیوں میں خامیاں، سیاسی تقرریاں، تربیت کا فقدان، پوسٹنگ، ٹرانسفر اور دوسروں سے اعلیٰ ہونے کا زعم بیوروکریسی کی گرتی ہوئی کارکردگی کی چند اہم وجوہات ہیں۔
پی ٹی آئی نے بیوروکریسی میں زبردست تبدیلیاں لانے کا عزم کیا تھا لیکن ابھی تک اس پر عمل نہیں ہوا۔ حکومت نے ایک کمیشن تشکیل دیا تھا اور اسٹیٹ بینک کے سابق گورنر عشرت حسین کو ادارہ جاتی اصلاحات کا مشیر مقرر کیا تھا۔
انہوں نے سول سروس ریفارمز میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں تجویز کیں لیکن ان کی سفارشات پر ابھی تک عملدرآمد نظر نہیں آیا۔ یہ مایوس کن ہے کہ ریاستی مشینری نے اپنے اندر تبدیلی کے خلاف مزاحمت کی ہے اور اعلیٰ افسران عوامی خرچ پر اقتدار کے عہدوں پر براجمان ہیں۔
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی ایک حالیہ رپورٹ میں پاکستان میں بڑھتی ہوئی بدعنوانی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ سرکاری ملازمین اور عوام کے درمیان اعتماد کا بہت بڑا فقدان ہے جو خدمات کی فراہمی میں رکاوٹ ہے لیکن یہ اشرافیہ عوام کی خدمت کو اپنی ذمہ داری محسوس نہیں کرتے۔
بیورو کریسی کے احتساب کا وعدہ پورا نہیں ہوسکا جو پی ٹی آئی حکومت کی ناکامی ہے۔ ملک کو ایسے سرکاری ملازمین کی ضرورت ہے جو مقامی بااثر افراد کیلئے نہیں بلکہ عوام کیلئے کام کریں۔ حکومت کو فلاحی ریاست کے خواب کو پورا کرنے کے لیے ادارہ جاتی اور سول اصلاحات کو تقویت دینے کی ضرورت ہے۔