عوام کی بدحالی یا نیتوں کا وبال

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

کیا معیشت اور انسانوں کی ترقی دو مختلف چیزیں ہیں؟ ہم کئی سالوں سے یہ سنتے آرہے ہیں کہ معیشت ترقی کررہی ہے اور ایکسپورٹ میں اضافہ ہورہا ہےمگر مقامی مارکیٹ میں وہی چیز دستیاب نہیں ہوتی جو ہم ایکسپورٹ کررہے ہیں اور اگر دستیاب بھی ہوتو وہ عام آدمی کی قوت خرید سے باہر ہوتی ہے۔

کیا ہم صرف معاشی اشاریوں کو دیکھتے ہیں؟ یا عام انسان کی قدر پر بھی غور کرتے ہیں۔اگر ہم عوام کی بات کریں تو کچھ ایسے نکات بھی ہیں جن پر کام کرکے زندگی آسان ہوسکتی ہے۔اگر انسانیت کی نظر سے دیکھا جائے تو ایک انسان میں سب سے اہم چیز ہے اخلاص اور اس کے ساتھ روحانیت ، پھرانسانیت اور پھر ایمانداری، مہربانی ، وقار اور عجز و انکسار۔ ان تمام اقدار کو یکجا کرکے جب ہم معیشت کیلئے اقدامات کرتے ہیں تواسے ہم معیشت کی ترقی گردانتے ہیں جس سے عوام  اور ملک دونوں خوشحال ہوسکتے ہیں۔

ندیم مولوی کے مزید کالمز پڑھیں:

برباد معیشت پر میں نہ مانوں کی تکرار

اسٹاک مارکیٹ میں حصص کا جادو

سیاستدان ان تمام چیزوں کو الگ درجات میں تقسیم کرکے خوابوں کی طرح پیش کرتے ہیں۔جن اقدار کو پوری دنیا سامنے رکھ کر پالیسیاں بناتی ہے انہی پالیسیوں کو پاکستان میں ہمیشہ نظر انداز کیا جاتا ہے۔حکومتیں ایسی پالیسیاں بناتی ہیں جن سے پاکستان میں جو چیز ہم ایکسپورٹ کررہے ہیں وہ پاکستان میں عوام کیلئے پائی نہیں جاتی اوراگر پائی بھی گئی تو اتنی مہنگی ہوتی ہے تو عوام اسے خریدسکتے ہیں نہ استعمال کرسکتے ہیں۔

ایسی صورتحال میں حکومت بہت خوش ہوتی ہے کہ جو نعمت اللہ تعالیٰ نے عوام کیلئے دی ہے اس سے عوام کو محروم کرکے چند کاروباری حضرات ان اشیاء کو دیگر ممالک کو بیچ کر دولت مند ہوجاتے ہیں اور پھر ایکسپورٹس کے نمبر دکھا کرحکومت کو خوش کیا جاتا ہے۔

حکومت کو چاہیے کہ عوام کے مفاد میں سب سے پہلے وہ اقدامات کئے جائیں جس سے پاکستانیوں کو پاکستان میں ہی بنائی گئی اعلیٰ معیار کی اشیاء سستے داموں مہیا ہوں لیکن ہوتا یہ ہے کہ معیاری اشیاء ملک سے باہر بھیج دی جاتی ہیں اور ناقص اشیاء عوام کو فراہم کی جاتی ہیں۔

امیر امیر تر ہوتا جاتا ہے اور ملک کی عوام غریب سے غریب تر ہوتے جاتے ہیں کیونکہ پیسہ صرف چند ہاتھوں تک محدود ہوجاتا ہے اور اسی کی وجہ سے پیسے والے اس کا خوب فائدہ اٹھاتے ہیں اور غریب لوگوں کو وہ مواقع نہیں ملتے جو امیروں کو میسر آتے ہیں۔

پاکستان میں کاروبار دو اقسام کے پائے جاتے ہیں۔ ایک چھوٹا دکاندار جو اپنے اخراجات نکالنے کے بعد جب منافع لیتا ہے تو اس کا اثر صارف پر صاف دکھائی دیتا ہے لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ مہنگائی کی وجہ کیا وہ دکاندار ہے جو اپنی دکان کا کرایہ، بجلی کا بل، سیلز مین اور مختلف اخراجات کے بعد منافع لے جاناچاہتا ہے۔

کنزیومر پرائس ایسوسی ایشن یا کسی اور قانونی عہدیدار کے نام پر اس کو ڈرادھمکا کر اس سے پیسے بھی لیے جاتے ہیں تب کہیں جاکر دکاندار یا تو اشیاء مہنگی کردیتا ہے یا اس دکان کوبند کردیاجاتا ہے اور ایسے مواقع پر وہ ایسوسی ایشن جو عوام کیلئے پیسے کم کروانے نکلتی ہے۔وہی اداروں کے ساتھ ملکر مک مکا کرلیتی ہے اور پھر دکاندار پریشان نظر آتا ہے۔جب دکاندار سے مہنگائی سے متعلق استفسار کیاجاتا ہے تو وہ پیچھے سے چیزیں مہنگی آنے اور اخراجات میں اضافے کا راگ سناتا ہے۔

دکان کے اخراجات کا جائزہ تو ہم نے لے لیا لیکن یہ پیچھے سے مہنگائی کرنے والے عناصر کون ہیں۔پیچھے سے مہنگائی کرنیوالے وہ صنعت کار ہوتے ہیں جو اچھی اشیاء باہر بھجوادیتے ہیں اور اپنے مسترد کردہ مال کو مقامی مارکیٹوں میں زائد قیمتوں پر بیچ دیتے ہیں۔کیونکہ ایکسپورٹ کے سامان پر کوالٹی چیک ہوتا ہے لیکن مسترد کردہ اشیاء کا معیار کہیں نہیں جانچا جاتا۔

مہنگائی کو ختم کرنے کیلئے کارخانوں سے لیکر دکانداروں تک کوالٹی اور قیمت کو کنٹرول کرنے کیلئے اداروں کو ایمانداری و دیانتداری کے ساتھ اور اپنا مذہبی فریضہ سمجھ کر کام کرنا ہوگا تاکہ مہنگائی پر قابو پایا جاسکے کیونکہ عوام کو صرف حکومت ہی مہنگائی سے نہیں مارتی بلکہ بڑے بڑے کاروباری حضرات بھی عوام کو مہنگائی سے ماررہے ہوتے ہیں۔

حکومت نے بجلی اور گیس مہنگی کردی، پانی اور گیس کی فراہمی میں ہمیشہ سے قلت کا سامنا رہا۔صنعت کاروں کیلئے شرح سود میں اضافہ کیاگیاجس سے پیداواری لاگت بڑھ گئی جس  کا مداوا کرنے کیلئے صنعت کار اور تاجر جو بھی اچھی چیزیں ہوتی ہیں وہ ملک سے باہر بھجواتے  اور اپنے مسترداورخراب سامان کو عوام کیلئے رکھ دیتے ہیں۔

اگر ملک میں مہنگائی کم کرنی ہے تو حکومت کو بجلی کی قیمتوں میں کمی، گیس اور پانی کی فراہمی اور شرح سود کو کم کرناپڑے گا تاکہ جس قیمت پر وہ اشیاء باہر بھجوائی جاتی ہیں انہیں قیمتوں پر عوام کو فراہم کی جائیں جیسا کہ جاپان میں ہوتا ہے۔ جاپان واحد ملک ہے جو اپنی اشیاء بے انتہا سستی بناتا ہے جسے ان صرف ان کی عوام استعمال کرتی ہے بلکہ پوری دنیا اس کو استعمال کرتی ہے۔جاپان میں آپ کوئی بھی چیزلیں وہاں کوالٹی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جاتا۔

اسی لئے جاپان کے عوام ایک معیاری زندگی گزارتے ہیں اور جوچیز وہ جس قیمت میں خرید رہے ہوتے ہیں اسی قیمت میں دنیا کو بھی فروخت کرتے ہیں لیکن ان کا اصول یہ ہے کہ وہی چیز ایکسپورٹ ہوگی جو استعمال کے بعد دستیاب ہوگی ۔ ان کی ترجیح اپنے عوام ہیں نہ کہ ایکسپورٹ ۔ یہی وجہ ہے کہ آج جاپان وہ ملک ہے جس کے عوام سب سے زیادہ خوش سمجھے جاتے ہیں۔

دیکھا جائے تو انسانیت کا بھی یہی تقاضہ ہے کہ پہلے اپنے گھر کے آرام و آسائش کیلئے سوچیں پھر اس کے بعد وہی آرام اور آسائش دوسروں کو فراہم کی جائیں۔

ہمارے وزیراعظم صرف ایکسپورٹ سے خوش ہوتے ہیں اور اسی کے اعداد و شمار بتاکر ملک کی ترقی کے دعوے کئے جاتے ہیں لیکن وزیراعظم اس بات کا ادراک نہیں کرتے کہ ان کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے ایکسپورٹرز امیر سے امیر اور عوام غریب سے غریب ہورہے ہیں۔

یہاں سوچنے کی بات یہ ہے کہ عوام کو نقصان کون پہنچارہا ہے۔حکومت کی پالیسیاں یا کاروباری حضرات؟ اور یہی وہ لمحۂ فکریہ ہے جس پر آج پاکستانی قوم کو غور کرنا ہے۔

Related Posts