دنیا کی دوسری بڑی چوٹی کے ٹو کو سر کرنے کے لئے جانے والے کوہ پیما علی سدپارہ اپنے دیگر تین ساتھیوں سمیت 4 فروری سے لاپتہ ہیں ، علی سدپارہ اور ان کے ساتھیوں کی تلاش کے لئے دو روز سے امدادی آپریشن جاری ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق محمد علی سدپارہ ، چلی کے کوہ پیما ایم پی موہر اور آئس لینڈ کے کوہ پیما جان سنوری سے آخری رابطہ جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب کو ہوا تھا جہاں تینوں کوہ پیماؤں نے تیسرا کیمپ لگایاتھا۔
ڈپٹی کمشنر بلتستان ڈویژن نے ایک ٹوئٹ کے ذریعے اطلاع دی تھی کہ تقریباً 20 گھنٹے قبل علی سدپارہ کا اپنے بیٹے ساجد سدپارہ سے رابطہ ہوا تھا جو اس مہم میں اس ٹیم کا حصہ تھے ، علی سدپارہ نے بیٹے کو بتایا کہ وہ اور ان کے ساتھی تیسرے کیمپ میں موجود ہیں۔
کے ٹو ۔ دنیا کی دوسری بلند چوٹی
کے ٹو کوہ ہمالیہ کے پاکستانی سلسلے کی سب سے مشہور چوٹی ہے اور ماؤنٹ ایورسٹ کے بعد دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی ہے۔
کے ٹو پہاڑ ” خطرناک پہاڑ ” کے نام سے مشہور ہے اس کی چوٹی پر چلنے والی ہوائیں 200 کلو میٹر فی گھنٹہ یعنی 125 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چلتی ہیں ۔ اور سردیوں میں درجہ حرارت منفی 6 ڈگری سینٹی گریڈ (منفی 76 فارن ہائیٹ ) تک گر جاتا ہے۔ یہ پہاڑ پاکستان کے شمالی خطے گلگت اور بلتستان ڈویژن کے درمیان واقع ہے۔
کے 2 قراقرم پہاڑی سلسلے کا سب سے اونچا مقام اور پاکستان اور چین کے سنکیانگ پہاڑی سلسلے میں سب سے اونچا مقام ہے۔
1952 میں کے ٹو کو سب سے پہلے سر کیا گیا تھا اور اب تک تقریباً 280 افراد اس پر چڑھنے میں کامیاب ہوئے ہیں اور ایک اندازے کے مطابق ہر تین میں سے ایک کوہ پیما کی موت ہوئی ہے۔
ریسکیو اور سرچ آپریش
پاکستان آرمی کے ہیلی کاپٹروں نے ہفتے کے روز ایک “سرچ فلائٹ” کا آغاز کیا لیکن وہ تین کوہ پیماؤں کو ڈھونڈنے میں ناکام ہونے پر گلگت میں موجود اسکردو کے مقام پر واپس آگئے۔
پاک فوج کے ہیلی کاپٹر نے 7000 میٹر کی بلندی پر اڑان بھری تاہم لاپتہ کوہ پیماؤں کو ڈھونڈنے کی کوشش میں کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔
اتوار کے روز لاپتہ پاکستانی کوہ پیما علی سدپارہ اور ان کے ساتھی کوہ پیماؤں کی تلاش کے لئے ایک خصوصی ٹیم تشکیل دی گئی۔
ریسکیو آپریشن مقامی کوہ پیماؤں کی مدد سے شروع کیا گیا جبکہ پاک فوج کے دو ہیلی کاپٹر بھی اس امدادی آپریشن میں حصہ لے رہے ہیں۔
امدادی آپریشن میں حصہ لینے والے مقامی کوہ پیماؤں میں فضل علی اور جلال کا تعلق شمشال جبکہ امتیاز حسین اور اکبر علی کا تعلق اسکردو سے ہے۔ ٹیم کے دیگر ارکان میں چھانگ داوا شرپا سمیت ایس ایس ٹی کمپنی کے ممبران شامل ہیں۔
پہاڑ کا سب سے خطرناک ترین علاقہ
دنیا کے پانچ بلند ترین پہاڑوں میں سے کے 2 خطرناک پہاڑوں میں گنا جاتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پہاڑ کی چوٹی تک پہنچنے والے ہر چار میں سے ایک کوہ پیما کی موت ہو جاتی ہے۔
علی سدپارہ کا بیٹا ساجد سدپارہ پہاڑی کی چوٹی پر پہنچے سے قبل آکسیجن ریگولیٹر میں مسائل کی وجہ سے کیمپ تھری سے واپس آگیا تھا۔
تینوں کوہ پیماؤں کا جمعرات اور جمعہ کی درمیان رات دیر گئے رابطہ منقطع ہو گیا تھا اس بات کی اطلاع ان کی معاون ٹیم نے ہفتے کے روز دی جب تمام طرح کی ان سے رابطہ کرنے کوششوں بے سود ہو گئیں ۔ رابطہ منقطع ہونے سے پہلے تینوں کوہ پیما تقریباً 8 ہزار 611 میٹر کی بلندی پر موجود تھے۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ تینوں کوہ پیماؤں نے رابطہ منقطع ہونے سے قبل یہ پیغام نشر کیا کہ انہوں نے کے ٹو کو سر کرلیا ۔ گورنر گلگت بلتستان اور وزیراعلیٰ نے اپنی اور قوم کی جانب سے ان کو چوٹی سر کرنے پر مبارکباد دی۔
اگرچہ ، اس سلسلے میں ابھی تک کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا گیا ہے اور فی الحال یہ واضح نہیں ہے کہ آیا وہ جمعہ کو چوٹی کو پہنچانے میں کامیاب ہوگئے یا نہیں۔
ایک دن پہلے بلغارین کوہ پیما کی موت کی خبر کے بعد سدپارہ اور اس کے ساتھیوں کے لاپتہ ہونے کی خبر تصدیق ہو گئی۔
کےٹو کی چوٹی پر ہونے والی اموات
کے ٹو ماؤنٹ ایورسٹ سے تقریبآ 800 فٹ چھوٹا ہے لیکن پیشہ ور کوہ پیماؤں کے ٹو کو زیادہ خطرناک قرار دیتے ہیں ۔ کے ٹو کی مہم جوئی کے دوران تقریبا 100 افراد کی موت ہو چکی ہے جبکہ قریباً 4000 افراد نے ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے کی کوشش کی ہے لیکن اس کے مقابلے میں کے ٹو کو صرف 300 کوہ پیماؤں نے سرکرنے کی کوشش کی۔ اس لئے اسے دنیا کی سب سے خوفناک چوٹی قرار دیا جاتا ہے۔
5 فروری 2020 کو بلغاروی کوہ پیماؤں کی ٹیم کے ٹو سرکرنے کے دوران موت کی وادی میں چلے گئے تھے۔ اس کے علاوہ گذشتہ ماہ ایک ہسپانوی کوہ پیما بھی موت کےمنہ چلا گیا۔
18 جنوری 2021 کو معروف ہسپانوی کوہ پیما سرجیو مینگوٹ کے 2 پر چڑھنے کے دوران فوت ہوگئے تھے۔ الپائن کلب آف پاکستان (اے سی پی) کے سکریٹری کرار حیدری کے مطابق ، مینگوت موسم سرما کے دوران “خوفناک پہاڑ” کی مہم جوئی کے دوران ہلاک ہو گیا تھا۔ تقریبا 800 میٹر کے فاصلے پر گرنے سے ان کو موت واقع ہوئی تھی۔
اسی طرح کا ایک واقعہ جولائی 2013 میں پیش آیا جس میں نیوزی لینڈ کے کوہ پیما اپنے بیٹے سمیت مہم جوئی کے دوران برفانی تودے کی زد میں ہلاک ہو گئے تھے۔
کے ٹو کی تاریخ میں بدترین سانحہ اگست 2008 میں پیش آیا جس میں 11 کوہ پیما برفانی تودے کی زد میں آکر ہلاک ہو گئے تھے۔
محمد علی سدپارہ
ممتاز کوہ پیما محمد علی سدپارہ جن کی عمر 45 سال ہے وہ 1977 کو گلگت بلتستان کے ایک گاؤں سدپارہ میں پیدا ہوئے۔ محمد علی سدپارہ کو پاکستان کے چار بڑے اونچے پہاڑ جن کی بلندی 8000 میٹر ہے سرکرنے کا اعزاز حاصل کرچکےہیں۔
لاپتہ کوہ پیماؤں کی بحفاظت واپسی کے لئے ہم سب دعاگو ہیں اور امید کرتے ہیں محمد علی سدپارہ اپنے ساتھیوں سمیت خیریت سے ہوں گے۔