عدالت نے ڈاکٹر عطاالرحمن کو HEC میں مداخلت سے روک دیا

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

عدالت نے ڈاکٹر عطاالرحمن کو HEC میں مداخلت سے روک دیا
عدالت نے ڈاکٹر عطاالرحمن کو HEC میں مداخلت سے روک دیا

کراچی : اسلام آباد ہائی کورٹ نے فیصل صدیقی کی درخواست ڈبلیو پی1925/2021 پر تفصیلی فیصلہ جاری کیا ہے، مذکورہ درخواست مشرف علی زیدی کی جانب سے صدر پاکستان کو فریق بنا کر داخل کی گئی تھی، اس کیس کی سماعت جسٹس اطہر من اللہ کی عدالت میں 18جنوری 2022 کو ہوئی تھی، جس کا فیصلہ بدھ کو جاری کیا گیا ہے،فیصلے میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کی آزادی و خود مختاری کے معاملات میں ڈاکٹر عطا الرحمن کی مداخلت کو روکا گیا تھا اور چیئرمین HEC ڈاکٹر طارق بنوری کو عہدے پر بحال کیا گیا تھا ۔

عدالت نے ڈاکٹر طارق بنوری کو ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کے چیئرمین کے عہدے پر بحال کرنے سے متعلق اپنے تفصیلی فیصلے میں توقع ظاہر کی ہے کہ وزیر اعظم عمران خان سائنس اور ٹیکنالوجی پر وزیر اعظم کی ٹاسک فورس کے چیئرمین ڈاکٹر عطا الرحمان کو ایچ ای سی کے معاملات میں مداخلت سے روکیں گے ، فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ ہم توقع کرتے ہیں کہ کنٹرولنگ اتھارٹی یعنی وزیر اعظم اس بات کو یقینی بنائیں گے ۔

فیصلے میں مزید لکھا گیا ہے کہ ہم نے پہلے بھی نوٹ کیا ہے کہ وزیر اعظم پاکستان کی ٹاسک فورس برائے سائنس و ٹیکنالوجی کے چیئرمین ڈاکٹر عطاالرحمن مفادات کے تصادم کی راہ پر چل رہے ہیں اور ایسا ہی مواد انہوں نے ہمارے سامنے رکھا تھا۔ فیصلے میں مزید لکھا گیا ہے کہ ہم توقع کرتے ہیں کہ وزیر اعظم پاکستان بحیثیت کنٹرولنگ اتھارٹی ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کی آزادی پر قدغن نہیں لگائیں گے، اس کی شفافیت کو بحال رکھیں گے اور ایچ ای سی کو منصفانہ کام کرنے دیں گے۔

فیصلے کے مطابق ان اداروں / مراکز کا آڈٹ کیا جانا چاہئے جن اداروں کے آڈٹ میں وزیر اعظم پاکستان کی ٹاسک فورس کے چیئرمین عطاالرحمن کی دلچسپی ہے ۔ عدالت کی جانب سے جامعہ کراچی میں واقع ایچ ای جے سے متعلق اشارہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ان اداروں، سینٹرز کو سرکاری خزانے سے خاطر خواہ فنڈنگ دی جاتی رہی ہے ، اس لئے کنٹرولنگ اتھارٹی یعنی قابل وزیر اعظم کے لیئے یہ بات اہم ہے کہ ایسے کسی بھی تاثر کو دور کریں جس سے یہ لگتا ہو کہ وہ یا ان کی ٹاسک فورس کسی ادارے کا آڈٹ نہیں ہونے دے رہے، اور ان کی جانب سے ایسا کوئی بھی نوٹی فکیشن جاری نہ کیا گیا ہو۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ ایچ ای سی شفافیت کی پالیسی پر عملدرآمد ہے تو اسے کسی بھی انسٹی ٹیوشن کا آزاد آڈٹ اور جانچ پڑتال کرنے کا حق ہے خاص طور پر اس معاملے میں جہاں چیئرمین ٹاسک فورس کی مداخلت جارہی ہے۔ ایسے کسی بھی ادارے کا آڈٹ بہت ضروری ہے جس میں ٹاسک فورس کے چیئرمین کی براہ راست یا بالواسطہ دلچسپی ہو، عدالت کی جانب سے کنٹرولنگ اتھارٹی یعنی وزیراعظم کو مزید حکم دیا ہے کہ وہ ہائر ایجوکیشن کمیشن میں ٹاسک فورس کے چیئرمین کی مداخلت کو روکیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے بدھ کو 21 صفحات پر مشتمل فیصلے میں کہا ہے کہ وزیر اعظم کے لیے یہ ضروری ہے کہ اس تاثر کو واضح طور پر دور کریں کہ HEC کی شفاف اور آزاد آڈٹ اور تشخیص کرنے کی پالیسی پر عمل درآمد سے بچنے کے لیے غلط نوٹیفکیشن جاری کیا تھا ، اس میں کہا گیا ہے کہ ڈاکٹر طارق بنوری کو ہٹانے کے عمل میں ڈاکٹر عطاالرحمان کا کردار اہم تھا جنہیں بعد میں ایچ ای سی کے سربراہ کے طور پر دوبارہ بحال کیا گیا تھا ۔

عدالت کی جانب سے جاری ہونے والے فیصلے میں واضح طو رپر لکھا گیا ہے کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کی آزادنہ پالیسیوں سے کون متاثر ہو رہا ہے ، اور یہ بات خط و کتابت سے اور اس کی مزاحمت سے واضح ہو گئی ہے ، مفادات کے تصادم کے عنصر کو پالیسی سازی کے انتظامی حکم پر ترجیع دینا قابل گرفت عمل ہے۔عدالت نے یہ بھی کہا کہ ایچ ای سی نے ان اداروں کی کارکردگی کی جانچ سے متعلق آڈٹ اور سکروٹنی کے حوالے سے ایک پالیسی بنائی ہے جنہوں نے عوامی فنڈز وصول کیے تھے۔ جن میں سر فہرست بین الاقوامی مرکز برائے کیمیائی اور حیاتیاتی علوم ہے ۔

عدالت نے کہا کہ ہمارے سامنے رکھے گئے ریکارڈ سے ظاہر ہوتا ہے کہ خزانے سے خطیر فنڈنگ یعنی تقریباً 40 ارب روپے ان اداروں کو موصول ہوئے ہیں جن میں وزیر اعظم کی ٹاسک فورس کے چیئرمین کی دلچسپی تھی، فیصلے میں مزید کہا گیا کہ ریکارڈ سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ مؤخر الذکر کی بیان کردہ پالیسی ہی واضح نہیں ہے اور اس کے باوجود ڈاکٹر عطاالرحمان نے ایچ ای سی کی کارکردگی کی جانچ اور آڈٹ کی بھی مزاحمت کی ہے ۔

فیصلے کے مطابق عدالت نے یہ بھی مشاہدہ کیا کہ ڈاکٹر عطاء الرحمان نے بظاہر ایچ ای سی کی جانب سے اداروں کے آڈٹ کے بجائے ان اداروں کی کارکردگی کا دفاع اور جواز پیش کرنے کی کوشش کی ہے‛ ، آڈٹ نہ کرانے کے حوالے سے اُن کی دلچسپی اُن کے لکھے ہوئے اخبارات کے کالموں سے بھی ظاہرہوتی ہے ۔

ریکارڈ پر غور و خوض اور دی گئی تجاویز سے اُن کا کردار ظاہر ہوتا ہے کہ جس کی وجہ سے بالآخر غیر قانونی نوٹیفیکیش جاری کیا تھا ۔

Related Posts