سندھ ہائیکورٹ کے سکھر بینچ نے ایک ہندو پروفیسر کو توہین مذہب کے الزام سے بری کر دیا ہے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں اس معاملے میں پولیس تفتیش کے دوران کوتاہیوں اور کمزوریوں کی نشاندہی بھی کی ہے۔
برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ہندو پروفیسر کبھی بھی کسی بھی سماج مخالف سرگرمیوں میں ملوث نہیں رہے اور نہ ہی ان کے خلاف مذہبی منافرت کو بھڑکانے یا کسی کے خلاف کوئی نازیبا الفاظ کہنے کا ثبوت ملتا ہے۔
یہ کیس کیسے بنا؟
مذکورہ ہندو پروفیسر پر 2019 میں توہین مذہب کا الزام عائد کیا گیا تھا، جس کے بعد دو سال قبل ایک مقامی عدالت نے ان کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔
ہندو پروفیسر کا خاندان اس واقعے کے بعد سے دربدری کی زندگی گزار رہا ہے۔ پروفیسر کی بیٹی کے مطابق انہیں عدالتی فیصلے سے کچھ ریلیف تو ملا ہے لیکن ابھی تک صورتحال غیر واضح ہے کیونکہ رہائی نہیں ہوئی۔
پروفیسر نے کیا گستاخی کی؟
پولیس کے مطابق توہین مذہب کے الزام کا یہ معاملہ 2019 میں اس وقت شروع ہوا، جب ہندو پروفیسر (متعلقہ اسکول کے مالک) کلاس میں اُردو کا مضمون پڑھا رہے تھے۔ کلاس ختم ہونے کے بعد ایک طالب علم اسلامیات کے ٹیچر کے پاس گئے اور پروفیسر پر پیغمبر اسلام کے خلاف نازیبا زبان استعمال کرنے کا الزام لگایا۔
اساتذہ نے اس معاملے کو رفع دفع کرنے کی کوشش کی اور ہندو پروفیسر نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ ان کی نیت کسی کے مذہبی جذبات مجروح کرنے کی نہیں تھی، لیکن مذکورہ طالبعلم نے اس واقعے کا ذکر اپنے والد سے کیا اور فیس بک پر بھی پوسٹ کر دیا جس کے بعد لوگوں میں اشتعال پھیل گیا۔
واقعے کے بعد مقامی بازار میں ہڑتال بھی کی گئی جس کے دوران ایک گروہ نے پروفیسر کے اسکول پر حملہ کر دیا اور وہاں توڑ پھوڑ کی۔ اس کے علاوہ ایک اور گروہ نے ہندو پروفیسر کی رہائش گاہ پر بھی حملہ کیا اور مندر پر بھی حملہ کر کے توڑ پھوڑ کی گئی۔