کراچی میں مردم شماری کے نتائج پرسیاسی جماعتوں کے تحفظات اور مسئلے کا ممکنہ حل ؟

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

Council of Common Interests decides to new census in pakistan

پاکستان تحریک انصاف مرکز میں حکومت بنانے کے بعد اب تک تمام اکائیوں کے ساتھ اتفاق رائے قائم کرنے میں ناکام رہی ہے جبکہ اب وفاقی حکومت نے 2017 میں ہونیوالی خانہ و مردم شمادی کے نتائج کی منظوری دیکر نیا تنازعہ کھڑا کردیا ہے۔

سندھ کی حکمراں جماعت پاکستان پیپلزپارٹی اور حکومت کی اتحادی جماعت ایم کیوایم پاکستان نے کراچی میں مردم شماری کے نتائج مسترد کرتے ہوئے حکومت سے علیحدگی کا عندیہ دیا ہے اور اگر ایم کیوایم وفاقی حکومت سے علیحدہ ہوتی ہے تو پی ٹی آئی حکومت کیلئے اپنا وجود برقرار رکھنا انتہائی مشکل ہوجائیگا۔

مردم شماری
پاکستان میں آخری بار مردم شماری 2017ء میں کرائی گئی جبکہ اس سے پہلے پاکستان میں مردم شماری ہر 10 سال بعد ہوتی تھی۔سب سے پہلی مردم شماری آزادی کے چار سال بعد 1951ء میں ہوئی ، پھر 1981،1972،1961 اور 1998 میں ہوئی۔1972 والی مردم شماری اصل میں 1971 کو ہونیوالی تھی مگر بھارت سے جنگ کی وجہ سے ایک سال تاخیر ہوئی اور پھر 1991 کی مردم شماری سیاسی گہما گہمی کے باعث موخر ہوئی۔

مردم شماری کے  نتائج
مردم شماری کے نتائج کے مطابق کراچی کی آبادی ایک کروڑ 49 لاکھ سے زائد ہے تاہم کراچی کے سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ کراچی کی آبادی 2 کروڑ سے زائد ہے جبکہ اقوام متحدہ اور 2015ء میں ہونیوالی ایک تحقیق کے مطابق کراچی کی آبادی کا اندازہ 1 کروڑ 60 لاکھ لگایا گیا تھا۔

کراچی میں مردم شماری کے نتائج اور 1998 ء کی آبادی کاموازانہ کیا جائے تو کراچی کی آبادی میں تقریبا 60 فیصد اضافہ ہوا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مردم شماری میں اندازوں کے مطابق کم آبادی ظاہر کی گئی ہے۔

پیپلز پارٹی
سندھ کی حکمراں جماعت پاکستان پیپلزپارٹی نے بھی مردم شماری کے نتائج مسترد کردیئے ہیں جبکہ اس حوالے سے سندھ اسمبلی میں موجود اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ اتفاق رائے سے ایک قرار داد بھی منظور کروائی جاچکی ہے اور سندھ اسمبلی میں موجود جماعتوں نے مردم شماری کے نتائج کا تھرڈ پارٹی آڈٹ کا مطالبہ پیش کیا ہے۔

ایم کیوایم
حکومت کی اتحادی جماعت ایم کیوایم ماضی میں کراچی میں سب سے زیادہ ووٹ لینے والی جماعت تھی تاہم 2018ء کے انتخابات میں شہری سندھ کی نمائندہ جماعت صوبائی اسمبلی کی 21 اور قومی اسمبلی کی 7 نشستوں پر کامیابی حاصل کرپائی۔

ایم کیوایم کے کنوینر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کا کہنا ہے کہ ہر مردم شماری میں سندھ کے شہری علاقوں کی آبادی 25 فیصد کم دکھائی گئی،ایم کیوایم پاکستان کے سربراہ خالد مقبول صدیقی نے کہا تھا کہ وزیراعظم نے ایم کیوایم سے کیے گئے کسی ایک وعدے پر بھی عمل نہیں کیا، ایک بھی مطالبہ پورا نہیں کیا، وفاقی حکومت نے ایم کیو ایم کے خدشات کے باوجود مردم شماری کو منظور کر لیا۔

جو معاشرہ مردم شماری ہی صحیح نہ کر سکے وہ مردم شناسی کیسے کرسکتا ہے۔ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے کراچی کے حوالے سے مردم شماری کے نتائج مسترد کرتے ہوئے حکومت چھوڑ کر سڑکوں پر آنے کا عندیہ دیا ہے تاہم انہیں امید ہے کہ وفاق کیساتھ مذاکرات سے معاملہ حل ہوجائیگا۔

تحریک انصاف
وفاقی حکومت کے سندھ میں نمائندے گورنر سندھ عمران اسماعیل نے مردم شماری سے متعلق اتحادی جماعت کے مطالبے کو درست قرار دے دیا۔ان کا کہنا ہے کہ مردم شماری کے نتائج کے حوالے سے پی ٹی آئی میں بات ہورہی ہے، ایم کیو ایم کے ساتھ مردم شماری کا مسئلہ جلد از جلد حل ہوجائے گا۔

گورنر سندھ نے ایم کیوایم کی حکومت سے علیحدگی کو خارج ازامکان قرار دیتے ہوئے 2023 میں انتخابات سے قبل نئی مردم شماری کا عندیہ دیا ہے۔

سپریم کورٹ آف پاکستان
کراچی میں مردم شماری کے نتائج پر تحفظات کے باعث ایم کیو ایم نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا تاہم درخواستیں زائد المیعاد ہونے کی وجہ سے اکتوبر 2020 کو سپریم کورٹ نے نئی درخواست دائر کرنے کا حکم دیا تھا۔

نتائج پر تحفظات
کراچی میں سال 2017ء کی مردم شماری پر سندھ کی حکمراں جماعت پیپلزپارٹی، ایم کیوایم ، اے این پی اور جماعت اسلامی سمیت تمام سیاسی وسماجی حلقوں کو تحفظات ہیں۔ سیاسی جماعتوں کا کہنا ہے کہ کراچی کی مردم شماری میں دانستہ آبادی کم ظاہر کی گئی ہے کیونکہ درست اعداد و شمار کے تحت اگر آبادی کا تناسب بڑھے گا تو اسمبلیوں میں نشستیں بھی بڑھیں گی اور حکومت کو وسائل بھی فراہم کرنا ہونگے ۔

نتائج میں تبدیلی کی ممکنہ وجوہات
معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ کراچی میں پورے ملک سے آکر لوگ آباد ہوتے ہیں اور قبائلی علاقوں اور شمالی علاقہ جات میں امن و امان کی صورتحال خراب ہونے کی وجہ سے لوگ کراچی کا رخ کرتے تھے جس کی وجہ سے ماضی میں اعداد و شمار مختلف تھے تاہم 2017 میں امن و امان کی صورتحال بہتر ہونے کے بعد ممکن ہے کہ پردیسی واپس لوٹ گئے ہوں جس کی وجہ سے مردم شماری کے نتائج مختلف ہوسکتے ہیں۔

آزاد سیاسی حلقوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ماضی میں کراچی میں بوگس ووٹوں کیلئے جعلی مردم شماری کروائی جاتی تھی اور یہی وجہ تھی کہ ایک ایک عمارت سے 6 ، 6 سو ووٹ نکلتے تھے جس پر سپریم کورٹ نے بھی حیرت اور پریشانی کا اظہار کیا تھا تاہم 2017ء میں کراچی میں درست مردم شماری کی گئی جس پر جعلی ووٹ بھگتانے والوں کو پریشانی کا سامنا ہے۔

ممکنہ حل
وسائل کی تقسیم ، انسانی ترقی اور سماجی بہبود سمیت زندگی کے ہر شعبہ میں مردم شماری کے نتائج اثر انداز ہوتے ہیں، مردم شماری کے تحت ہی حکومتیں انسانوں کیلئے منصوبہ بندی کرتی ہیں۔

کراچی میں مردم شماری پر تحفظات کے بعد شہری بھی نتائج کے حوالے سے مطمئن دکھائی نہیں دیتے ایسے میں اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے تھرڈ پارٹی آڈٹ اور نئے مردم شماری کے مشورے پر عمل اور تحفظات دور کرکے اس مسئلے سے بخوبی نمٹا جاسکتا ہے۔

Related Posts