جمہوریت کے بنیادی اصولوں میں سے ایک اختلاف رائے بھی ہے جسے بسا اوقات جمہوریت کا حسن کہا جاتا ہے۔ اختلاف ایک مضبوط جمہوری نظام کی ترقی کے لیے ضروری ہے جو مختلف نظریات اور عقائد کے ماننے والوں کو پرامن بقائے باہمی کی اجازت دیتا ہے۔
خیالات کا آزادانہ تبادلہ افراد کو اذیت کے خوف کے بغیر اپنی رائے کا اظہار کرنے اور فیصلہ سازی کے عمل میں حصہ لینے کی آزادی عطا کرتا ہے۔ آراء کا تنوع ایک ایسے اتفاق رائے تک پہنچنے میں مدد کرتا ہے جو تمام افراد اور گروہوں کے مفادات کی عکاسی کرتا ہے اور ایک مستحکم معاشرے کی ترقی کا باعث بنتا ہے۔
حکومت کے نظام کے طور پر جمہوریت کی ایک طویل اور پیچیدہ تاریخ ہے جو قدیم یونان تک پھیلی ہوئی ہے۔ اس کے بعد سے مختلف ممالک نے جمہوری طرز حکمرانی کی مختلف شکلوں کو اپنانے کے ساتھ بے مثال ترقی کی ہے۔ جمہوریت کے اصولوں میں ووٹ کا حق، اظہار رائے کی آزادی، قانون کی حکمرانی اور انفرادی حقوق کا تحفظ شامل ہے۔ ان اصولوں کو مختلف بین الاقوامی اعلامیوں اور چارٹرز میں شامل کیا گیا ہے جس میں انسانی حقوق کا عالمی اعلامیہ بھی شامل ہے۔
تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عام انتخابات کا مطالبہ کر رہی ہے لیکن وزیر اعظم شہباز شریف کی قیادت میں حکومت نے الیکشن کے انعقاد سے صاف انکار کر دیا ہے۔ حکومت نے انتخابات نہ کرانے کی مختلف وجوہات بتائی ہیں، جن میں جاری وبائی امراض اور انتخابی سکیورٹی پر خدشات شامل ہیں۔ تاہم بعض کا خیال ہے کہ حکومت ان وجوہات کو انتخابات کے انعقاد سے بچنے اور اقتدار سے چمٹے رہنے کے لیے استعمال کر رہی ہے۔
سابق وزیراعظم عمران خان نے قومی اسمبلی کو 14 مئی تک تحلیل کرنے کا مطالبہ کر دیا۔ اس کال کو موجودہ حکومت اور دیگر سیاسی جماعتوں کی جانب سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے سپریم کورٹ کو بھی مداخلت کرنے اور الیکشن کمیشن سے اس معاملے پر گفتگو کی اجازت نہیں دی جس سے سیاسی کشیدگی مزید بڑھ گئی ہے۔
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) حکومت نے سپریم کورٹ کی جانب سے توہین عدالت کے خطرے کے جواب میں توہین پارلیمنٹ کا نیا بل تجویز کیا ہے۔ اس اقدام کو جمہوری نظام اور پارلیمنٹ کی بالادستی کے تحفظ کی کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے تاہم عدلیہ کا مؤقف اس سے مختلف ہے۔
دراصل ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال پیچیدہ ہے اور اس میں شامل تمام فریقین کی جانب سے متوازن نقطہ نظر کی ضرورت ہے۔ پی ٹی آئی کو حکومت کی رائے کا احترام کرتے ہوئے انتخابات کے لیے جدوجہد بھی جاری رکھنی چاہیے۔ بدلے میں حکومت کو ان خدشات کو دور کرنے اور بروقت اور شفاف طریقے سے انتخابات کے انعقاد کے لیے کوئی راستہ تلاش کرنا چاہیے۔
حکومت اور اپوزیشن دونوں کے لیے قانون کی حکمرانی اور آئین کا احترام کرنا بھی ضروری ہے۔ انہیں تشدد یا دیگر غیر قانونی طریقوں کا سہارا لینے کے بجائے مذاکرات اور گفت و شنید کے ذریعے سیاسی تنازعات کے حل کے لیے کام کرنا چاہیے۔ پی ڈی ایم کے مجوّزہ توہین پارلیمنٹ کے بل پر احتیاط سے غور کیا جانا چاہیے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ یہ عدلیہ کی آزادی کو مجروح نہ کرے یا پھر اس سے بنیادی انسانی حقوق متاثر نہ ہوتے ہوں۔