کراچی: جامعہ اردو کے قائم مقام وائس چانسلر ڈاکٹر ضیا القیوم بھی جامعہ اردو کے ساتھ سابق وائس چانسلر جیسا سلوک کرنے لگے، تعلیمی مسائل کے حل کے بجائے انتظامی معاملات میں دلچسپی کی وجہ سے متعدد افسران کے تقرر و تبادلے او ر بھاری تنخواہ پر کرنل (ر) افتخار حسین کو کلیدی عہدے پر تعینات کر کے تین تین ذمہ داریاں دی گئی ہیں،جب کہ طلبہ کی اہم ترین ضرورت کے پیش نظر GRMC اجلاس بلانے اور مستقل وائس چانسلر کے تقرر کیلئے نمایاں کوششیں تک نہیں کی گئی ہیں۔
سروے کے مطابق جامعہ کے اردو کے متعدد پی ایچ ڈی، ایم فل اور ایم ایس کی ڈگریاں تفویض کرنے اور اکیڈمک کونسل کے اجلاس کے بعد طلبہ کے تحقیقی مقالوں، ریسرج پرپوزل، داخلوں سمیت دیگر تعلیمی معاملات کیلئے اکیڈمک کونسل و نظامت اعلی تعلیم و تحقیق (جی آر ایم سی) کے اجلاس میں فیصلے کئے جاتے ہیں جن کا اجلاس نہ ہونے سے طلبہ کو مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
سابق وائس چانسلر ڈاکٹر روبینہ مشتاق کے دور میں 10 ستمبر 2021 بروز جمعہ کو نظامت اعلی تعلیم و تحقیق (جی آر ایم سی) کا 48واں اجلاس منعقد کیا گیا تھا، جس کے بعد اب 4 ماہ گزر جانے کے باوجو دو نظامت اعلی تعلیم و تحقیق(جی آر ایم سی)کا اجلاس منعقد کرنے کا ایجنڈا تک تیار نہیں کیا جا سکا ہے،جس کی وجہ سے درجنوں ایم فل طلبہ کو پی ایچ ڈی داخلوں میں مسائل، پی ایچ ڈی طلبہ کو ملازمت میں مسائل سمیت دیگر کئی طلبہ کو بھی مختلف مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
واضح رہے کہ 4 ماہ قبل منعقد ہونے والے قبل نظامت اعلی تعلیم و تحقیق(جی آر ایم سی)کے اجلاس میں 12 طلبہ کو پی ایچ ڈی، 29 طلبہ کو ایم فل اور 3 طلبہ کو ایم ایس کی ڈگری تفویض کی گئی تھیں ، برسوں کی محنت کے بعد 16 سالہ تعلیم مکمل کر کے ایم اے کرنے والے طلبہ کو اسناد تفویض کرنے کے لئے جامعہ اردو 8 برس سے کوئی کانووکیشن منعقد نہیں کر سکا ہے جبکہ طلبہ سے کانووکیشن کے لئے 3 مرتبہ اشتہار دیکر لاکھوں روپے وصول کئے جا چکے ہیں ۔
جامعہ کے کوڈ کے مطابق ہر تین ماہ بعد ہرصورت میں نظامت اعلی تعلیم و تحقیق(جی آر ایم سی)کا اجلاس منعقد کرنا ضروری ہے، تاکہ ایم فل کے طلبہ کو پی ایچ ڈی کے داخلوں ، پی ایچ ڈی کے طلبہ کو ملازمت سمیت دیگر مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ جامعہ اردو میں قائم مقام وائس چانسلر ڈاکٹر ضیا القیوم نے بھی سابق وائس چانسلرز کی طرح جامعہ اردو میں ایڈمنسٹریشن میں تبدیلیاں کرتے ہوئے سب سے پہلے رجسٹرار ڈاکٹر صارم کو ہٹا کر ڈاکٹر روبینہ مشتاق کو رجسٹرار مقرر کیا۔
محمد صدیق کوپی اینڈ ڈی سے، ڈاکٹر زرینہ کو باغبانی کی انچارج شپ سے، طارق زمان کو سویپرز کی نگرانی سے ہٹا کر ان کی جگہ کرنل (ر) افتخار حسین کو کیمپس انچارج کے علاوہ دیگر ذمہ داریاں بھی دے دی گئیں جب کہ اکیڈمک سطح کے امور اور مستقل وائس چانسلر کی تعینات کے لئے کوئی اقدام نہیں اٹھایا ہے۔
جس کے لئے وفاقی اردو یونیورسٹی کے اراکین سینیٹ ڈاکٹر توصیف احمد خان، ڈاکٹر سید طاہر علی اور ڈاکٹر عرفان عزیز نے صدر پاکستان اور یونیورسٹی کے چانسلر ڈاکٹر عارف علوی سے اپیل کی تھی کہ وہ یونیورسٹی میں مستقل وائس چانسلر کی تقرری کے عمل کو جلد از جلد مکمل کروائیں اور اس سلسلے میں درپیش مسائل کے حل کے لئے فوری طور سینیٹ کا خصوصی اجلاس طلب کریں۔
تینوں اراکین سینیٹ نے صدر مملکت اور یونیورسٹی کے چانسلر سے اپیل کی تھی کہ ان کی خصوصی توجہ کے باعث یونیورسٹی میں طویل عرصے سے التواء کا شکار سلیکشن بورڈز کے انعقاد کا سلسلہ شروع ہوا تھا لیکن چند شعبوں کا سلیکشن بورڈ تاحال منعقد نہیں ہو سکا۔
موجودہ قائم مقام وائس چانسلر کو خصوصی اختیار دے کر باقی ماندہ سلیکشن بورڈ منعقد کروا کر 2013 اور 2017 کے سلیکشن بورڈ کی کارروائی مکمل کی جا سکتی ہے، اس سلسلے میں موصول ہونے والی شکایات کے حل کے لئے موجودہ قائم مقام وائس چانسلر کی سربراہی میں ڈین کمیٹی قائم کر کے فیصلے تک پہنچا جا سکتا ہے۔
واضح رہے کہ جامعہ اردو کے قائم مقام وائس چانسلر کی جانب سے اکیڈمک معاملات کی عدم انجام دہی کی ایک وجہ سینڈیکیٹ اجلاس کے مبہم منٹس بھی ہیں ، اجلاس میں ڈاکٹر ضیا القیوم نے کہا تھا کہ میں پالیسی پر اثر انداز ہونے والے فیصلے نہیں کروں گا جب کہ منٹس میں پالیسی اجلاس کا انعقاد بھی نہیں کروں گا لکھا گیا ہے جس کی وجہ سے اب وہ سینٹ ، سنڈیکیٹ، اکیڈمک کونسل اور جی آر ایم سی جیسے اہم فیصلوں کے لئے اجلاس بلانے میں بھی ہچکچا رہے ہیں۔
مزید پڑھیں: کرنل (ر) افتخار کو جامعہ اُردو میں تعینات کر کے 3 عہدوں سے نواز دیا گیا