یہ 15 اپریل 1985 کی ایک روشن صبح تھی، 8 بجنے والے تھے۔ چلچلاتی دھوپ میں ایم وائی اسکوائر کی رہنے والی دو بہنیں نجمہ زیدی اور بشریٰ زیدی، نواب صدیق علی خان روڈ عبورکرکے سرسید کالج کی جانب جا رہی تھیں۔یہ دونوں اس بات سے بے خبر تھیں کہ موت ان کے تعاقب میں آ رہی ہے۔
لیاقت آباد ڈاکخانے کی طرف سے این ون روٹ کی دو منی بسیں ریس لگاتی ہوئی آ رہی تھیں ،ریس کا مقصد تفریح نہیں لالچ تھا تاکہ زیادہ سے زیادہ مسافروں کو سوار کرنے کا موقع دوسری منی بس کو نہ مل سکے اور آگے رہنے والی منی بس زیادہ مسافروں کو سوار کرکے زیادہ کرایہ وصول کرسکے۔
ریس لگاتی منی بسوں نے سگنل توڑتے ہوئے بشریٰ اور نجمہ کو ایک ساتھی طالبہ کے ساتھ کچل دیا۔ 20 سالہ بشریٰ زیدی تو موقع پر ہی جاں بحق ہو گئی، بشریٰ کی بہن نجمہ اور ساتھی طالبہ شدید زخمی ہوگئیں۔
40سال پہلے ہونے والے اس حادثے میں جاں بحق ہونے والی بشریٰ زیدی کا خون سڑک پر بکھرا تو روشنیوں کے شہر کراچی پر خوف کے اندھیرے چھاگئے۔ ۔
شہر قائد جو امن کا گہوارہ اور ہر قومیت کے لوگوں کا مسکن تھا وہاں روزانہ دو درجن کے قریب لاشیں گرنے لگیں۔
کراچی میں فسادات اتنے بڑھے کہ فوج بلانی پڑی۔ ۔ لیکن کراچی کو آگ اور خون میں دھکیلنے کا کھیل ختم نہیں ہوا۔ ۔ اور آگے چل کر یہ واقعہ ایم کیوایم کے سیاسی ظہور کا سبب بنا۔
دوستو۔ شائد بشریٰ زیدی کانام بہت سے لوگوں نے پہلے نہ سنا ہو مگرایم کیوایم سے تو آپ سبھی واقف ہونگے۔ آج کی اس ویڈیو میں ہم آپ کو اس واقعہ کے بارے میں بتائیں گے جو روشنیوں کے شہر کراچی کی تباہی کا سبب بنا اور اسی واقعہ کے بعد ایم کیوایم منظر عام پر آئی ۔
امن اور روشنیوں کے شہر کراچی کی تاریخ بدلنے والی یہ کہانی جاننے کیلئے ہمارے ساتھ رہیں اور ویڈیو کو آخر تک ضرور دیکھیں تاکہ آپ کو اس واقعہ سے متعلق مکمل معلومات مل سکیں اور آگے بڑھنے سے پہلے اگر آپ ہمارے چینل پر نئے ہیں تو چینل کو سبسکرائب کردیں اور ساتھ ہی بیل کے بٹن کو بھی دبادیں تاکہ آپ کو ہماری ہر آنیوالی ویڈیو کا نوٹیفکیشن سب سے پہلے مل سکے۔
1970 کی دہائی کے اختتام تک کراچی میں ملک بھر کی تمام قومیتوں فرقوں اور نسلی گروہوں کے لوگ روزگار کی تلاش میں مختلف علاقوں میں آباد ہوچکے تھے ۔
شہر کی کثیرالنسلی یا کثیرالقومی حیثیت بننا شروع ہوچکی تھی ،ہر رنگ نسل مذہب فرقے اور مسلک کے لوگ کراچی میں آباد تھے مگر اُس وقت شہر کا ماحول انتہائی پرامن تھا۔
5 جولائی 1977 کو جنرل ضیاالحق نے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ کر مارشل لاء نافذ کردیا۔
آپ سوچ رہے ہونگے کہ بات بشریٰ زیدی کے حادثے کی ہورہی تھی لیکن ہم آپ کو کراچی کی تاریخ اور ضیا کے مارشل کی طرف لے گئے تو تھوڑا سا صبر رکھیں۔ ۔ اور ویڈیو اسکپ کرنے کے بجائے دھیان سے دیکھیں تاکہ آپ کو کراچی کی تباہی کا یہ نوحہ ٹھیک سے سمجھ آسکے کیونکہ ویڈیو میں ہم آپ کو جو بھی چیزیں بتارہے ہیں ان کا آپس میں بہت گہرا تعلق ہے۔
کراچی کی تباہی کا سبب جاننے کیلئے ان تمام کڑیوں کو جوڑنا بہت ضروری ہے۔ ۔لیکن چلیں آپ کو پہلے بشریٰ زیدی کے ایکسیڈنٹ کی طرف لے کر چلتے ہیں تاکہ آپ کو کراچی کی تباہی کا سبب بننے والی اصل وجہ کا پتا چل سکے۔ ۔
15 اپریل 1985ء کو کراچی میں ناظم آباد چورنگی پر دو تیز رفتار بسوں نے سر سید گرلز کالج کی چند طالبات کو کچل دیا جن میں سے ایک طالبہ بشریٰ زیدی جاں بحق ہوگئیں۔
اس حوالے سے بعض صحافیوں کا کہنا ہے کہ بشریٰ زیدی سڑک پر چلتے ہوئے حادثے کا شکار ہوئیں جبکہ کچھ صحافی کہتے ہیں کہ بشریٰ زیدی منی بس میں سوار تھیں اور ریس لگاتی منی بس سے اترتے ہوئے اسی بس کے پہیوں کے نیچے کچلی گئیں۔ ۔
کیس بہت زیادہ پرانا ہونے کی وجہ سے دونوں باتوں میں سے کونسی ٹھیک ہے یہ تو اندازا لگانا تھوڑا مشکل ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس حادثے میں بشریٰ زیدی کی جان نہیں گئی بلکہ سیکڑوں افراد لقمہ اجل بنے۔ ۔
اس حادثے کے بعد پرسکون شہری زندگی آگ، گیس اور گولی کے جہنم میں دھکیل دی گئی۔ پورا شہر کراچی آگ اور دھویں کی لپیٹ میں آگیا۔ پورے شہر کراچی میں فسادات پھوٹ پڑے، متعدد دکانیں، بنک اور گاڑیاں نذر آتش کردی گئیں۔
کراچی کے تمام تعلیمی ادارے بند کردیئے گئے اور متعدد علاقوں میں تاحکم ثانی کرفیو نافذکردیا گیا۔ 15 اپریل کے ٹریفک حادثے کے بعد تعصبات بھڑکانے کی ایک منظم تحریک شروع ہوگئی ابتدائی ہنگاموں میں 9 افراد ہلاک اور سو سے زیادہ زخمی ہوئے۔
کراچی میں ٹرانسپورٹ کا کاروبار پختون بھائیوں کے ہاتھ میں ہے اور پولیس میں بھی پختون اور پنجابی افراد کی اکثریت ہے اس لئے ان ہنگاموں کو مہاجر اور پنجابی پٹھان فسادات کا رنگ دے دیا گیا اور پورا شہر فرقہ واریت اور لسانی فسادات کی زد میں آگیا۔
اس فرقہ واریت اور فساد کا سلسلہ آئندہ کئی سالوں تک جاری رہا اور ٹریفک کے ایک حادثے کو بہانہ بناکر کراچی جیسے پرامن اور باہمی الفت و محبت والے شہر میں لسانی اور علاقائی تعصبات کا زہر گھول دیا گیا۔
بشریٰ جسم کے اوپری حصّوں اور سر پر چوٹ کی وجہ سے موقع پر ہی دم توڑ گئیں جبکہ اُن کی بہن نجمہ کی ٹانگ پہیوں سے کچل کر ٹوٹ گئی،خون کی سرخی سڑک کی سیاہی کو دھندلا رہی تھی۔ اب لال لال خون، کالی سڑک پر ایک ہنستے بستے شہر کے اجڑ جانے کا نوحہ لکھ رہا تھا۔ یہ سرخی کراچی کا مستقبل سیاہ کرنے والی تھی۔ ۔
بشریٰ زیدی کے حادثے کے اگلے روز چند طالبات نے اپنی ساتھی طالبہ کی ہلاکت پر ناظم آباد چورنگی پر چند پلے کارڈ اٹھا کر مظاہرہ کرناچاہا لیکن اس موقع پر پولیس نے حسب روایت بے تدبیری اور وحشت و بربریت کا مظاہرہ کیا۔
اس نے مظاہرہ کرنے والی طالبات پر اپنی گاڑی چڑھادی، آنسو گیس کے گولے پھینکے اور ان کے کالج میں زبردستی داخل ہوکر وہاں بھی شیلنگ اور لاٹھی چارج کا مظاہرہ شروع کردیا جس کے نتیجے میں متعدد طالبات زخمی اور بے ہوش ہوگئیں۔
جب یہ طالبات مرہم پٹی کروانے کے لئے عباسی شہید اسپتال پہنچیں تو وہاں بھی ان کی مڈبھیڑ پولیس سے ہوگئی۔ پولیس کے ساتھ ایک زخمی کانسٹیبل بھی تھا۔ پولیس چاہتی تھی کہ ڈاکٹر طالبات کی بجائے پہلے زخمی کانسٹیبل کی مرہم پٹی کریں۔ اس پر ڈاکٹروں اور پولیس والوں کی تکرار ہوگئی۔
پولیس نے اس موقع پر تدبر سے کام لینے کی بجائے ڈاکٹروں اور پیرامیڈیکل اسٹاف کی پٹائی شروع کردی اور شعبہ حادثات کے شیشے اور کائونٹر توڑ دیئے۔
کراچی میں اُس وقت شہریوں اور پبلک ٹرانسپورٹ کے ڈرائیورز، مالکان، عملے اور پبلک ٹرانسپورٹ کی مختلف تنظیموں کے درمیان ایک کشیدگی پہلے ہی سے موجود تھی۔
پبلک ٹرانسپورٹ کے عملے ڈرائیورز اور کنڈیکٹر وغیرہ کا طرز عمل اور مقامی شہریوں کی انا ہو یا رویّہ ان وجوہات کی بنا پر یا پھر کرائے، بد تہذیبی کی شکایات اور آئے دن رونما ہونے والے حادثات، سب نے مل کر مقامی شہریوں اور پبلک ٹرانسپورٹ کے اس عملے اور شہریوں کے درمیان ایک خلیج قائم کردی تھی۔
یہ شکایات بھی عام تھیں کہ پبلک ٹرانسپورٹ کے غیر مقامی ڈرائیورز، کنڈیکٹرز یا مالکان، مسافروں خاص طور پر خواتین سے بدسلوکی کرجاتے ہیں اور زیادہ پیسے کمانے کی اس دوڑ میں مقامی ثقافت متاثر ہورہی ہے۔
سر سیّد کالج کے آس پاس کئی اور تعلیمی ادارے بھی واقع تھے۔ ’بالکل ہی برابر میں گورنمنٹ گرلز کالج کی عمارت تھی، ذرا ہی فاصلے پر عثمانیہ کالج تھا۔ کچھ ہی دور طلبا کے لیے مخصوص سٹی کالج اور سے چند سو گز دور پریمئر کالج اور پھر سڑک کے عین دوسری جانب طلبا کا گورنمنٹ کالج فار مین تھا۔
بشریٰ زیدی کے واقعے کی اطلاع جنگل کی آگ کی طرح پھیلی اور دیکھتے ہی دیکھتے آس پاس کے تمام ہی تعلیمی اداروں سے طلبا و طالبات ہزاروں کی تعداد میں سرسیّد گورنمنٹ گرلز کالج کے سامنے عین جائے حادثہ پر جمع ہوگئے۔
ساتھی طالبہ کی المناک ہلاکت اور بے ہنگم پبلک ٹرانسپورٹ کی اس لاپرواہی کے خلاف ہجوم نے احتجاجاً سڑک پر دھرنا دے دیا۔
احتجاج کے دوران ہجوم میں شریک مشتعل عناصر نے آتی جاتی کسی بس (یا غالباً) بشریٰ زیدی کے حادثے کی ذمہ دار منی بس کو نذر آتش کر ڈالا۔
بس پھر کیا تھا۔
جب ایک گاڑی کو آگ لگا دی گئی ہو تو اُس کے بعد نہ تو کوئی گزرتی گاڑی محفوظ رہتی ہے اور نہ ہی کوئی تاخیر سے بند ہونے والی دکان۔
یہ واقعہ گلبہار تھانہ کی حدود میں ہوا تھا جو ذرا ہی دور واقع تھا۔ وہاں سے پولیس کے موقع پر پہنچنے تک جب ہنگامہ آرائی قابو سے باہر ہوئی تو پولیس نے آتے ہی مشتعل ہجوم پر دھاوا بول دیا۔ ۔
پولیس کی طرف سے اس قدر آنسو گیس فائر کی گئی تھی کہ آس پاس کا ماحول آنسو گیس کی لپیٹ میں تھا، یوں لگتا تھا جیسے اندھیرا چھا گیا ہو۔
پولیس سے ہونے والی جھڑپوں میں کئی طلبا زخمی اور درجنوں کو گرفتار کرلیا گیا۔
موقع پر بھیجی جانے والی پولیس نے مشتعل ہجوم پر قابو پانے کے لیے لاٹھی چارج اور گرفتاریاں شروع کیں تو بات صرف ناظم آباد چورنگی سے لسبیلہ جانے والی نواب صدیق علی خان روڈ یا لیاقت آباد سے پاک کالونی جانے والی سیّد الطاف علی بریلوی روڈ تک محدود نہیں رہی۔
آس پاس کے علاقوں میں بھی پرتشدد واقعات رونما ہونے لگے اور پولیس اُن مظاہرین کے تعاقب میں گلی محلّوں میں جاپہنچی۔
تھوڑی ہی دیر میں بظاہر یہ اچانک شروع ہوجانے والا احتجاج پولیس کی شیلنگ، لاٹھی چارج اور ہجوم کے خلاف طاقت کے زبردست استعمال کی وجہ سے ذرا ہی سی دیر میں منظّم لسّانی فساد کی شکل اختیار کرگیا۔
ناظم آباد، فردوس کالونی، خاموش کالونی، پاپوش نگر سے لے کر قصبہ، علی گڑھ، اورنگی ٹاؤن اور پہاڑ گنج جیسے علاقوں میں اردو بولنے والی مقامی آبادی اور ان ہی علاقوں میں آباد پشتون افراد کے درمیان کشیدگی کا ماحول پیدا ہوگیا۔
دیکھتے ہی دیکھتے تشدد کے چھوٹے چھوٹے واقعات بڑے بڑے منظم حملوں میں بدلنے لگے۔
گُرو مندر سے لسبیلہ تک پٹیل پاڑہ، پاک کالونی بسم اللہ ہوٹل گارڈن اور نارتھ ناظم آباد سے کوچی کیمپ تک کی آبادیوں میں ذرا ہی دیر میں ایسے ہتھیاروں کی گونج سنائی دینے لگی جو اس سے پہلے کراچی میں کبھی نہیں سنی گئی تھی۔
ایک طالبہ کی ہلاکت پر شروع ہونے والا طلبا و طالبات کا احتجاج باقاعدہ لسّانی فساد کی شکل اختیار کرکے کئی قیمتی جانوں کا خراج وصول کرچکا تھا۔
فساد کا دائرہ کئی بستیوں آبادیوں اور محلّوں تک پھیل چکا تھا اور ہر طرف سے حملوں اور ہلاکتوں کی اطلاعات آرہی تھیں۔
موجودہ پولیس افسران کے فراہم کردہ مواد کے مطابق صورتحال اتنی بگڑی کہ بالآخر فوج کو طلب کرنا پڑا۔
فوج کے آنے آنے تک گلی گلی میں خوف و ہراس کا اندھیرا چھانے لگا۔
کرفیو کے نفاذ سے خوراک اور دیگر اشیائے ضرورت کی بھی شدید قلت پیدا ہوگئی ،تمام تعلیمی ادارے بھی غیر معینہ مدّت تک کے لیے بند کردیے گئے مگر حملوں اور ہلاکتوں کا سلسلہ بلا تعطل جاری رہا۔
کراچی والوں نے سہراب گوٹھ جیسی بستیوں میں وہ کلاشنکوف رائفل بھی پہلی بار چلتے دیکھی جو افغانستان میں جنگ کی وجہ سے پاکستان پہنچی تھی۔
اخبارات کا دعویٰ ہے کہ بشریٰ زیدی کی اس ہلاکت کے بعد کئی ہفتوں جاری رہنے والے تشدّد کے سلسلے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد پچاس سے دو سو تک چلی گئی تھی۔
’اصل میں یہ غصّے کا وہ لاوا تھا جو بہت دیر سے پھٹ پڑنے کا منتظر تھا۔ یہ وہ نفرت اور اشتعال تھا جس کا ایک تسلسل اور پس منظر تھا۔‘سینئر صحافیوں کا کہنا ہے کہ کراچی میں پہلے بھی حادثات ہوتے تھے لیکن اس واقعہ سے ایسا لگا کہ شائد کسی حادثے کا انتظار کیا جارہا تھا ؟
1970 کی دہائی کے اختتام تک کراچی میں ملک بھر کی تمام قومیتوں فرقوں اور نسلی گروہوں کے لوگ روزگار کی تلاش میں مختلف علاقوں میں آباد ہوچکے تھے اور اُن کی تعداد بڑھتی جارہی تھی۔گھر ہو یا محلہ، شہر ہو یا مضافات، کہیں دور دور تک فرقہ واریت، عدم برداشت یا طاقت و تشدد کا نام بھی نہیں تھا۔
کراچی کی تباہی کے اسباب جاننے کیلئے اب ہمیں تھوڑا مزید پیچھے جانا ہوگا جب 5 جولائی 1977 کو جنرل ضیاالحق نے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کا تختہ الٹ کر مارشل لاء نافذ کردیا۔جنرل ضیا الحق نے بھٹو کا تختہ تو الٹ دیا تھا لیکن سندھ میں کوٹہ سسٹم پھر بھی نافذ رہا۔ ۔
شہری آبادی کے بڑے حصّے کا خیال تھا کہ کوٹہ سسٹم جیسی ناانصافیاں اس لئے ہوتی ہیں کہ سندھ کی اردو بولنے والی اس آبادی کی اپنی کوئی سیاسی نمائندگی نہیں۔
یہ وہ خیال تھا جس کی بنیاد پرکراچی میں ایم کیوایم کا قیام عمل میں آیا۔ ۔ اور کراچی یونیورسٹی طالبعلم الطاف حسین نے 11 جون 1978 کو آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (اے پی ایم ایس او) قائم کی۔
انتہائی پرکشش نعروں کے سہارے یہ تنظیم شہر کے کئی تعلیمی اداروں میں جا پہنچی۔ ۔اے پی ایم ایس او نے فروری 1981 میں شہری علاقوں میں سرگرمیوں کا آغاز کیا جہاں خوب مقبولیت اور پذیرائی ملنے لگی اور یہ طلبہ تنظیم ایم کیوایم بن گئی۔
بھٹو کا تختہ الٹ کر مارشل لا نافذ کرنے والے جنرل ضیا الحق کوملک بھر میں عوامی مدد اور حمایت حاصل نہیں تھی ،ضیا حکومت کو سیاسی حمایت کی تلاش تھی اور جنرل ضیا سیاسی دوست تلاش کررہے تھے کہ بشریٰ زیدی کا حادثہ رونما ہوگیا۔
الطاف حسین کی مہاجر قومی موومنٹ نے شہری علاقوں کے احساس محرومی پر آواز اٹھائی تو جنرل ضیا کوکراچی کو زبان کی بنیاد پر تقسیم کرنے کا موقع مل گیا۔
جنرل ضیا الحق ہر صورت پیپلز پارٹی کا زور ختم کرنا چاہتے تھے اس لئے انہوں نے ایم کیو ایم کو فروغ دیا۔15 اپریل 1985 کو بشریٰ زیدی کے حادثے کے بعد ایم کیوایم اردو بولنے والوں کی نمائندہ جماعت کے دعوے کے ساتھ ابھری۔
اس وقت کراچی میں جماعت اسلامی کا ووٹ بینک تھا۔ کراچی میں لسانی سیاست شروع ہونے کے بعد ایم کیوایم اور جماعت اسلامی کے درمیان کشیدگی بڑھتی گئی۔ ۔
اسی دوران سہراب گوٹھ کے علاقے میں منشیات فروشوں کے خلاف آپریشن کیا گیااورسہراب گوٹھ پشتون اکثریتی آبادی کا علاقہ تھا ،اس آپریشن کے فوراً بعد مہاجر اکثریتی آبادیوں علی گڑھ کالونی اور قصبہ کالونی میں فائرنگ کے پراسرار واقعات ہوئے جن میں درجنوں افراد مارے گئے اور اسے سہراب گوٹھ آپریشن کا ردعمل سمجھا گیا۔
اس کے بعد پشتون اور مہاجر آبادیوں میں شدید لسّانی کشیدگی پھیل گئی جس کا زبردست فائدہ الطاف حسین اور اُن کی ایم کیو ایم کو ہوا۔ڈر اور خوف کی فضا میں ایم کیو ایم کو مضبوط کرتی چلی گئی۔
1988 کے انتخابات میں شہری سندھ ایم کیو ایم اور دیہی سندھ مکمل طور پر پیپلز پارٹی میں بٹ گیا۔ ۔ پھر ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی نے مل کر صوبائی اور وفاقی حکومتیں تشکیل دیں۔ ۔
مقبولیت کی انتہا پر الطاف حسین کی ایم کیو ایم بلا شرکت غیرے کراچی کی سیاسی ، بلدیاتی ، انتظامی اور مالی معاملات کی مالک بن گئی۔ ۔
اسی کی دہائی کے واقعات پر گرفت رکھنے والے صحافی اور ماہرین کا ماننا ہے کہ بھٹو کی پیپلزپارٹی کا زور توڑنے کیلئے ضیا الحق کو کسی دوسری قوت کی تلاش تھی اور اس قوت کی بھرپور نمائش کا موقع بشریٰ زیدی کا حادثہ بنا۔ ۔ اس واقعے سے کراچی میں ایسی آگ بھڑکی جس کے اثرات کئی برسوں تک کراچی میں نظر آتے رہے ۔
امید ہے کڑیوں کو ملانے سے آپ کو بھی انداز ہوگیا ہوگا کہ یہی واقعہ ایم کیوایم کی سیاسی رونمائی کا سبب تھا۔ ۔