بطور اسلامی جمہوریہ پاکستان ہمارے پیارے وطن میں جمہوریت کا نظام رائج ہے جہاں وزیر اعظم کا عہدہ سب سے زیادہ اختیارات کا حامل ہے۔ وزیر اعظم نہ صرف حکومت کا سربراہ ہوتا ہے بلکہ عالمی سطح پر قوم کی نمائندگی بھی کرتا ہے۔
مختلف سرکاری محکموں کے کام کاج کی نگرانی اور ملکی پالیسیوں اور سمت کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرنا بھی وزیر اعظم کی مرہونِ منت ہوتا ہے۔ ایک سال قبل وزارتِ عظمیٰ کا عہدہ سنبھالنے والے شہباز شریف ملکی معیشت کے حوالے سے حکومت کی کارکردگی کے باعث عوامی تنقید کی زد پر ہیں۔
موجودہ حکومت کے حق میں جانبدارانہ بیان بھی دے دیا جائے تو بدقسمتی سے یہ حکومت عوام کی توقعات پر کسی بھی طرح پوری نہیں اتر سکی۔ ملکی معیشت بے تحاشا مہنگائی، بڑھتے ہوئے تجارتی خسارے اور قرض کے بھاری بھرکم بوجھ کا شکار ہے۔
اقتدار میں آنے سے قبل پی ڈی ایم کے تمام رہنما بشمول وزیر اعظم شہباز شریف اور جے یو آئی سربراہ مولانا فضل الرحمان نے عمران خان دور کی مہنگائی کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا مگر جب خود اقتدار میں آئے تو عوام سے کیے ہوئے وعدے وفا نہ کرسکے۔
معیشت مین مثبت تبدیلی لانے کا وعدہ کرنے کے باوجود موجودہ پی ڈی ایم حکومت عوام کی زندگیوں کو بہتر تو کیا کرتی، عوام کیلئے بنیادی انسانی حقوق تک کا حصول مشکل ہوتا جارہا ہے۔
اگر اس دور کا موازنہ عمران خان دور سے کیا جائے تو یہ تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں کہ پی ٹی آئی دور میں مہنگائی مقابلتاً کسی نہ کسی حد تک قابو میں تھی۔ عوامی جذبات عمران خان کے حق میں بھی مثبت نہیں تھے، تاہم پی ڈی ایم دور آجانے کے بعد عمران خان کی مقبولیت میں جو اضافہ ہوا ہے، اس کی وجہ خود پی ڈی ایم کو ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔
عمران خان حکومت نے ملک کی خارجہ پالیسی کو نئی راہ پر گامزن کرنے اور امریکا و روس سمیت دیگر ممالک سے تعلقات بڑھانے اور خوشگوار کرنے کیلئے اقدامات اٹھائے تھے۔ ملک قرض کی بجائے سرمایہ کاری کیلئے تعلقات کو فروغ دے رہا تھا۔
حال ہی میں اپنے ایک ٹوئٹر پیغام میں شہباز شریف نے الزام عائد کیا کہ عمران خان نے امریکا کے ساتھ تعلقات بڑھانے کی کوشش کی ہے جبکہ ماضی میں عمران خان اپنی حکومت گرانے کا الزام امریکا پر عائد کیا کرتے تھے۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے یہ الزام بھی لگایا کہ عمران خان نے پاکستان کے خارجہ مفادات کو نقصان پہنچایا ہے تاہم مستقبل کیلئے کوئی ٹھوس لائحۂ عمل پیش کیے بغیر ایک دوسرے پر الزام تراشی سے قومی مفادات کا حصول ممکن نہیں ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ وزیر اعظم نہ صرف عوامی مسائل کی نشاندہی کریں بلکہ ان کا عملی حل بھی پیش کیا جائے۔ اتفاقِ رائے پیدا کرنا اور معاشرے کے اہم طبقات بالخصوص غریب اور پسماندہ افراد کی ضروریات کا خیال رکھنا بھی حکومت کا اوّلین فریضہ ہے۔