حکومت کو ایک ہفتے میں ای سی ایل قوانین میں تبدیلیاں قانونی دائرہ کار میں لانے کی ہدایت

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کو ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) کے قوانین میں حالیہ تبدیلیوں کو ایک ہفتے کے اندر قانون کے دائرے میں لانے کی ہدایت کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ ہدایت پر عمل نہ کیے جانے کی صورت میں حکم جاری کیا جائے گا۔

تفصیلات کے مطابق عدالت عظمیٰ میں حکومتی شخصیات کی تحقیقاتی اداروں میں مبینہ مداخلت کے کیس کی سماعت ہوئی۔ عدالت نے ای سی ایل ترامیم کو قانونی دائرہ میں لانے کے لیے حکومت کو ایک ہفتے کی مہلت دیتے ہوئے کہا کہ عمل نہ ہونے کی صورت میں حکم جاری کریں گے۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ایسے ملزم کا نام بھی ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نکال دیا گیا جو عدالت عظمیٰ نے شامل کروایا تھا۔ نیب مقدمات کے نام ای سی ایل میں کون شامل کرواتا ہے؟

یہ بھی پڑھیں:    پی ٹی آئی نے مخصوص نشستوں پر الیکشن کمیشن کے فیصلے کو چیلنج کردیا

سماعت کے دوران چیف جسٹس کے استفسار پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ای سی ایل میں نام چیئرمین نیب کی ہدایت پر شامل کیے جاتے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اس کا مطلب ہے نیب سوچ سمجھ کر ہی نام ای سی ایل میں ڈالنے کا کہتا ہے۔ نیب کا ہر کیس ہی کرپشن کا ہوتا ہے لیکن نیب ہر ملزم کا نام ای سی ایل میں شامل نہیں کرواتا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ نیب کے مطابق اربوں روپے کی کرپشن کے ملزمان کے نام ای سی ایل سے نکالے گئے۔

جسٹس مظاہر نقوی نے دوران سماعت ریمارکس دیے کہ بہتر ہوتا کہ ہر کیس کا الگ جائزہ لے کر نام نکالے جاتے۔ حکومت کہتی ہے کہ بیرون ملک جانا بنیادی حق ہے، اگر ایسا ہے تو ای سی ایل کا کیا جواز رہ گیا ہے؟۔

خیال رہے کہ اٹارنی جنرل کا کیس کی سماعت کے دوران کہنا تھا کہ میری رائے میں تو ای سی ایل ہونی ہی نہیں چاہیے، جس کے جواب میں چیف جسٹس نے کہا کہ کیس میں ذاتی رائے پر نہیں جائیں گے۔ ممکن ہے عدالتی حکم مشکلات پیدا کرے، لیکن ایک ہفتے میں مناسب اقدامات کرلیں۔ فی الحال ہم ایگزیکٹو اختیارات میں کوئی مداخلت نہیں کرنا چاہتے۔

مزید برآں سپریم کورٹ میں کیس کی سماعت کے دوران ایف آئی اے کے ڈی جی لاء نے کہا کہ شرجیل میمن سمیت 8 افراد ملک سے باہر گئے اور واپس نہیں آئے۔ چیف جسٹس نے ڈی جی ایف آئی اے کو ہدایت کی کہ اگر کوئی زبردستی کیس بنوانے کی بات کرے تو عدالت کو آگاہ کریں۔ آپ سول سرونٹ ہیں، کسی کی مداخلت تسلیم نہ کی جائے۔

عدالت نے ایف آئی اے اور نیب کے ہائی پروفائل مقدمات کا ریکارڈ مانگتے ہوئے تمام ثبوتوں اور مقدمات کی سافٹ کاپی کو عدالت میں جمع کرانے کاحکم دیااور ساتھ میں یہ بھی واضح کیا کہ اگر ریکارڈ گم ہوا تو سپریم کورٹ سے آپ کو مل جائے گا۔

سپریم کورٹ کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ چیئرمین نیب کے حوالے سے توقع ہے حکومت سوچ سمجھ کر تعیناتی کرے گی۔ معاملے پر نظر رکھے ہوئے ہیں، حکومت سے اچھی توقع ہے کہ صاف، ایماندار، قابل اور نیک نام شخص کو چیئرمین نیب لگایا جائے۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ توقع ہے جو کہنا چاہ رہا ہوں آپ سمجھ گئے ہونگے۔ نیب بھی یقینی بنائے کہ اس کا ادارہ کسی کے خلاف انتقام کے لیے استعمال نہ ہو۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ عدالت کو تشویش آزادانہ تفتیش اور ٹرائل کے حوالے سے ہے، نظام انصاف کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے، یہ کہنا درست نہیں کہ پاکستان کی عدلیہ 128 ویں نمبر پر ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پاکستان کی رینکنگ ڈیٹا نہیں بلکہ تاثر کی بنیاد پر کی گئی۔ عدالت نے ازخود نوٹس کی مزید سماعت 14 جون تک ملتوی کردی۔

Related Posts