پاکستان میں بڑھتا ہوا خودکشی کا رجحان اور ہماری معاشرتی ذمہ داریاں

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

The last letter of a woman who committed suicide was found

گزشتہ روز پی ایچ ڈی کی طالبہ نادیہ اشرف کی خودکشی کے بعد سے سوشل میڈیا پر یہ بحث زور پکڑ گئی ہے کہ پاکستان میں خودکشی کا رجحان بڑھ کیوں رہا ہے اور اِس حوالے سے ہماری معاشرتی ذمہ داریاں کیا ہیں؟

آئیے خودکشی کے حالیہ واقعات کا جائزہ لیتے ہیں اور یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ انسان یہ انتہائی قدم اٹھانے پر کیوں مجبور ہوتا ہے جبکہ اِسلام نے اسے حرام قرار دیا ہے۔

خودکشی کے حالیہ واقعات 

کراچی میں خودکشی کرنے والی نادیہ اشرف پی ایچ ڈی سپروائزر ڈاکٹر اقبال چوہدری کی طرف سے ہراسگی کا شکار تھیں جو ان کی خودکشی کی ممکنہ وجہ قرار دی جاسکتی ہے۔ 6 روز قبل ایک ماں نے اپنے 3 بچوں کو زہر دیا اور خود بھی خودکشی کر لی۔ یہ واقعہ کراچی کے علاقے گلشنِ حدید میں پیش آیا۔ واقعے کی وجہ گھریلو جھگڑا تھا۔

حال ہی میں خودکشی کرنے والے بھارتی فلمی اداکار سشانت سنگھ راجپوت کی موت کی وجوہات ابھی تک واضح نہیں ہوسکیں تاہم بعض میڈیا رپورٹس کے مطابق وہ نفسیاتی امراض کا شکار تھے۔ فلمی اداکار جہاں بھی جاتا ہے، فلم بینوں کی بھیڑ لگ جاتی ہے، اس کے باوجود وہ خود کو تنہا محسوس کرتے تھے۔ یہ عجیب قسم کی بیماری نفسیاتی مرض قرار دی جاسکتی ہے۔

آج سے 2 ماہ قبل 14 جون کے روز ایک خاتون نے اپنے شوہر کی دوسری بیوی کو شیخوپورہ میں فائرنگ کرکے قتل کردیا اور پھر خود بھی خودکشی کر لی جس کی وجہ گھریلو ناچاقی کے ساتھ ساتھ عدم اعتماد اور میاں بیوی کی محبت میں ناکامی کا شدید احساس قرار دیا جاسکتا ہے۔

راولپنڈی میں 3 ماہ قبل 12 مئی کے روز لاک ڈاؤن سے پریشان 7 بچوں کے باپ نے بیوی کو قتل کرکے خودکشی کر لی۔ کام کاج نہ ہونے کے باعث بچے فاقہ کشی کا شکار تھے۔ باپ کی خودکشی کو معاشی ناکامی سے تعبیر کیا گیا۔

پاکستان میں خودکشی کا رجحان 

حال ہی میں گیلپ سروے نے ایک رپورٹ شائع کی جس کے مطابق 7 فیصد پاکستانی خودکشی کرکے موت کا شکار یا ناکامیاب ہونے والے افراد کو براہِ راست جانتے ہیں۔ ملک کی آبادی اِس وقت 22 کروڑ 14 لاکھ 68 ہزار سے زائد ہے جس کا 7 فیصد 1 کروڑ 55 لاکھ افراد بنتے ہیں۔

ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں ہر 40 سیکنڈ میں 1 شخص خودکشی کا ارتکاب کرتا ہے۔ ہر سال 8 لاکھ افراد خود اپنی ہی جان لے لیتے ہیں جبکہ عالمی ادارۂ صحت کے مطابق 15 سے 29 سال کی عمر کے افراد میں موت کی دوسری اہم وجہ خودکشی ہوتی ہے۔

عالمی ادارۂ صحت کے مطابق سن 2016ء کے دوران خودکشی کے 79 فیصد واقعات کا تعلق پسماندہ یا غریب ممالک سے تھا جبکہ پاکستان میں خودکشی کی شرح اسی سال 1 لاکھ کی آبادی میں 1.4 فیصد ریکارڈ کی گئی۔ ایچ آر سی پی (ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان) کے مطابق 2015ء میں خودکشی کے 1 ہزار 900 واقعات ہوئے۔

تکلیف دہ خودکشی کی ممکنہ وجوہات

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے مطابق 90 فیصد خودکشی کے واقعات میں زیادہ تر افراد کسی نہ کسی ذہنی بیماری میں مبتلا پائے گئے۔ ایک سال کے دوران صرف لاہور میں 27 مردوں اور 21 خواتین نے خودکشی کی۔ماہرینِ نفسیات کے مطابق تمام تر ذہنی امراض کا آغاز ڈپریشن یا ذہنی دباؤ سے ہوتا ہے۔

ماہرینِ نفسیات کے مطابق مختلف ذہنی امراض کا شکار افراد اپنے مسائل کا حل خودکشی میں تلاش کرتے ہیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ مرنے کے بعد ہر مشکل سے چھٹکارہ مل جائے گا، تاہم یہ حقیقت نہیں ہے کیونکہ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ دیگر مذاہب کے لوگ بھی موت کے بعد ایک اور زندگی پر یقین رکھتے ہیں۔

معاشی مسائل کا حل

بعض اوقات لوگ اِس لیے بھی خودکشی کرتے ہیں کہ انہیں فاقہ کشی کا کوئی حل نظر نہیں آتا جبکہ معاشی مسائل  کا حل معاشرتی رویوں میں تبدیلی لانے سے حاصل ہوسکتا ہے۔

گزشتہ ادوار میں جب کوئی پریشان حال شخص ایک طرف بیٹھا ہوا نظر آتا تھا تو صاحبِ حیثیت لوگ خود اس کے قریب جا کر اس کی مدد کردیا کرتے تھے لیکن موجودہ دور میں پیشہ ور گداگروں کی بہتات نے مخیر افراد کو بھی کنجوسوں کی روش اختیار کرنے پر مجبور کردیا ہے۔

ہم سب کو چاہئے کہ معاشی مسائل کے حل کیلئے گزشتہ ادوار کی یاد تازہ کرتے ہوئے ایک دوسرے کی مدد کا اجتماعی رویہ اپنائیں جس کیلئے مسلسل جدوجہد، انتھک محنت اور طویل انتظار کی ضرورت ہے کیونکہ یہ رویے طویل وقت کے بعد پیدا ہوئے اور انہیں واپس مثبت سمت میں لے جانے کیلئے بھی شاید اتنا ہی وقت درکار ہو۔ 

ممکنہ علاج

نفسیاتی بیماریوں کا علاج پیچیدہ اور مشکل ہوتا ہے تاہم علاج سے احتیاط کو بہتر قرار دیا جاتا ہے۔ ماہرینِ نفسیات کے مطابق ذہنی امراض سے محفوظ رہنا ہے تو گھریلو ماحول کو خوشگوار بنائیں۔ مایوسی تمام تر مسائل کی جڑ ہے۔ اگر کوئی مسئلہ درپیش ہے تو اس کے حل سے قبل مثبت سوچ کو فروغ دینا ضروری ہے۔

ذہنی اذیت سے بچنے کیلئے ڈپریشن کا شکار افراد کو چاہئے کہ ابتدا ہی سے ماہرینِ نفسیات سے رابطہ کریں اور اپنے مسائل کو تفصیل سے بیان کرکے ان کا حل تلاش کریں۔ وقت کو فضول کاموں میں ضائع کرنے کی بجائے مثبت سرگرمیوں میں استعمال کریں۔ 

اسلام کا مؤقف 

مایوسی کفر ہے۔ اسلام کے مطابق خودکشی وہی لوگ کرتے ہیں جو خدا کی رحمت سے مایوس ہوجائیں۔قرآنِ پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کہہ دو اے میرے بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو، بے شک اللہ سب گناہ بخش دے گا۔ بے شک وہ بخشنے والا مہربان ہے۔

دوسری جانب انسان کا جسم اور زندگی اسلام کے نزدیک اس کی ذاتی ملکیت یا کسبی نہیں بلکہ اللہ کی عطا کی ہوئی امانت ہے۔ زندگی اللہ کی ایسی عظیم نعمت ہے جو باقی نعمتوں کیلئے بنیاد فراہم کرتی ہے۔

دینِ اسلام نے خودکشی کو حرام قرار دیتے ہوئے بتایا کہ کسی بھی انسان کو خود اپنی جان تلف کرنے کی بالکل اجازت نہیں کیونکہ زندگی اور موت دینے والا اللہ تعالیٰ ہے۔ ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا گیا۔

اللہ تعالیٰ سورۃ بقرہ کی آیت نمبر 195 میں ارشاد فرماتا ہے:  اور اپنے ہاتھوں سے خود کو ہلاکت میں نہ ڈالو اور صاحبانِ احسان بنو، بے شک اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔

Related Posts