چینی کی ذخیرہ اندوزی

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

 ملک میں کئی روز تک مصنوعی قلت کی وجہ سے چینی کی بڑھتی قیمت ایک بار پھر 170 سے گر کر 100سے 105 روپے تک آچکی ہے،چینی کی ایکس مل قیمت میں گزشتہ ایک ہفتے کے دوران 40 روپے فی کلو کمی واقع ہوئی ہے۔

کراچی میں چینی کی ایکس مل قیمت 100 روپے فی کلو،پنجاب میں ایکس مل قیمت 101 روپے فی کلو ہو چکی ہے۔پشاور میں محکمہ خوراک کے گوداموں سے درآمدی چینی کی فراہمی شروع ہونے کے بعد 90 روپے کلو چینی دستیاب ہے۔

وزیراعظم عمران خان نے 2روز قبل قیمتوں پر کنٹرول سے متعلق اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہا تھاکہ ناجائز منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی، ان کا کہنا تھا کہ عوام کے سامنے حقائق اور اعداد و شمار پیش کئے جائیں اور موثر آگاہی مہم چلائی جائے۔

ذخیرہ اندوزوں اور ناجائز منافع خوری کے مرتکب افراد کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔اجلاس میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ اس وقت موجود چینی کے تمام اسٹاک کو مارکیٹ میں لایا جائے اور 15 نومبر سے پورے ملک میں گنے کی کرشنگ کا آغاز کیا جائے۔

مشیر خزانہ اور وفاقی وزراء بھی بار بار یہ کہتے رہے کہ چینی کی قیمت میں اضافہ مصنوعی قلت کی وجہ سے ہے اور مقامی حکومتوں کو فوری کارروائی کرنی چاہیے لیکن سندھ حکومت کی غفلت کی وجہ سے ذخیرہ اندوزوں نے چینی چھپا کر مارکیٹ میں مصنوعی قلت پیدا کی اور قیمتوں میں من مانا اضافہ کرکے عوام سے کروڑوں روپے لوٹ لئے ہیں جبکہ گزشتہ روز کورنگی میں واقع فلور ملوں پر چھاپے مارے گئے اور حیرت کی بات تو یہ ہے آٹا ملوں سے بھی چینی برآمد ہوئی جس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ چینی دانستہ چھپا کر لوگوں کو پریشان کیا گیا۔

حکومت کی جانب سے کارروائیاں شروع ہونے کے بعد شوگر ملوں اور ذخیرہ اندوزوں کی جانب سے چینی کا اسٹاک مارکیٹ میں آنے سے قیمت 100 روپے تک آچکی ہے اور سندھ کی کرن شوگر ملز ،نوڈیرو شوگر ملز، مٹیاری شوگر ملز، چمبڑ شوگر ملز اورخیر پور شوگر ملز میں کرشنگ شروع ہونے سے صورتحال میں مزید بہتری آئیگی جبکہ آئندہ تین روز میں سندھ کی باقی 24شوگر ملیں کرشنگ سیزن شروع کر دیں گی جس سے مصنوعی قلت کا مسئلہ ختم ہوجائیگا۔

اس پورے بحران کے دوران وفاقی حکومت کی بار بار نشاندہی کے باوجود کئی روز تک عوام کو مہنگے داموں چینی خریدنے پر مجبور کیا گیا اورجب سے موجودہ حکومت نے اقتدار سنبھالا ہے چینی کی قیمتوں میں 200 فیصد سے زائد کا اضافہ ہوا ہے اور چینی کی قیمت 53 روپے سے بڑھ کر 170 روپے فی کلو تک بھی دیکھی گئی۔ چینی کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافے کی وجہ سے شوگر مل مالکان، ہول سیلرز اور مڈل مینوں نے مل کر ستمبر 2018ء سے اکتوبر 2021ء کے درمیان 270 ارب روپے کا منافع کمایا۔

موجودہ صورتحال میں یہ ثابت ہوچکا ہے کہ پاکستان میں چینی کی قلت نہیں تھی ، شوگر مل مالکان نے دانستہ کرشنگ میں تاخیر کرکے ذخیرہ اندوزی کا جواز بنایا اور قیمتوں میں اضافہ کرکے عوام کو نقصان پہنچایا گیا کیونکہ مارکیٹ میں مسابقت نہ ہونے کی وجہ سے کمپنیاں اپنی اجارہ داری قائم کئے ہوئے ہیں۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت سخت اقدام اٹھاکر کارٹلائزیشن کا راستہ بند کرے اور مصنوعی قلت اور ذخیرہ اندوزی کرنیوالوں کیساتھ سخت سے نمٹا جائے تاکہ بار بار مصنوعی قلت اورقیمتوں میں من مانے اضافے کا مسئلہ حل ہوسکے۔

Related Posts