آسٹریلیا نے جمعرات کو 16 سال سے کم عمر بچوں کے لیے سوشل میڈیا پر پابندی کی منظوری دے دی ہے ، جو کہ ایک جذباتی بحث کے بعد سامنے آئی۔
رویٹرز کے مطابق یہ قانون انسٹاگرام اور فیس بک کے مالک میٹا اور ٹک ٹوک جیسی بڑی ٹیک کمپنیوں کو یہ پابند کرتا ہے کہ وہ نابالغوں کو سوشل میڈیا میں لاگ ان کرنے سے روکے، بصورت دیگر انہیں 49اعشاریہ 5 ملین آسٹریلیائی ڈالر (32 ملین ڈالر) تک جرمانے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس قانون کے نفاذ کے طریقوں کا ایک تجربہ جنوری میں شروع ہوگا اور پابندی ایک سال بعد نافذ ہو جائے گی۔
سوشل میڈیا پر پابندی کا بل ایک آزمائشی کیس کے طور پر پیش کرتا ہے جنہوں نے سوشل میڈیا پر عمر کی پابندی کے قوانین منظور کیے ہیں یا ان کے بارے میں اعلان کیا ہے، اس خدشے کے پیش نظر کہ یہ نوجوانوں کی ذہنی صحت پر منفی اثر ڈال سکتا ہے۔
فرانس اور بعض امریکی ریاستوں جیسے ممالک نے نابالغوں کے لیے والدین کی اجازت کے بغیر سوشل میڈیا تک رسائی کو محدود کرنے کے قوانین پاس کیے ہیں ۔ فلوریڈا میں 14 سال سے کم عمر بچوں پر مکمل پابندی کو آزادانہ تقریر کے لحاظ سے عدالت میں چیلنج کیا جا رہا ہے۔
اس قانون کی منظوری آسٹریلیا کی پارلیمانی سال کے آخری دن کے بعد ہوئی ہے، جو کہ مرکزبائیں وزیراعظم انتھونی البانی کے لیے ایک سیاسی کامیابی ہے، جو 2025 میں انتخابات میں جا رہے ہیں، جبکہ عوامی رائے کے جائزے میں ان کی مقبولیت میں کمی آئی ہے۔
اس پابندی کا سامنا پرائیویسی کے وکلا اور بعض بچوں کے حقوق کے گروپوں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا لیکن تازہ ترین سروے کے مطابق 77 فیصد آبادی اس کے حق میں تھی۔
2024 کے دوران پارلیمانی تحقیقاتی عمل کے پس منظر میں، جس میں ان والدین کے شواہد سنے گئے جو سوشل میڈیا کے بلنگ کی وجہ سے خود کو نقصان پہنچا چکے ہیں۔
پاکستان میں انٹرنیٹ کی رفتار کم رہنے کی شکایات، مسئلہ کب حل ہوگا؟
یہ پابندی آسٹریلیا اور بیشتر امریکی ٹیک کمپنیوں کے درمیان بڑھتے ہوئے عدم اعتماد کے ماحول پر بھی اثر انداز ہو رہی ہے۔ آسٹریلیا دنیا کا پہلا ملک تھا جس نے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو میڈیا اداروں کو ان کے مواد کو شیئر کرنے پر رائلٹیز ادا کرنے کا حکم دیا تھا اور اب وہ انہیں دھوکہ دہی کا خاتمہ نہ کرنے پر جرمانے کی دھمکی دینے کا ارادہ رکھتا ہے۔