اسموگ کا بحران

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

لاہور شہر کو بھارتی دارالحکومت نئی دہلی کو پیچھے چھوڑتے ہوئے دنیا کا آلودہ ترین شہر قرار دیدیا گیا ہے جبکہ پنجاب میں اسموگ کا بحران شدت اختیار کر گیا ہے اور شہریوں نے حکومت سے فوری ایکشن لینے کا مطالبہ کیا ہے اورمضحکہ خیز بات تو یہ ہے کہ حکومت کوئی حل تلاش کرنے کے بجائے ہوا کے معیار کا انڈیکس جاری کرنے والوں کے خلاف کارروائی کر رہی ہے۔

موسم سرما اور فصلوں کو جلانے سے فضائی آلودگی میں مزید اضافہ ہوتاہے۔ پاکستان اکثر لاہور میں اسموگ کی صورتحال کا ذمہ دار بھارت کو ٹھہراتا ہے۔

گاڑیوں کے دھوئیں اور سردی میں درجہ حرارت کی وجہ سے حالات پچھلی دہائی کے دوران مزید خراب ہوئے ہیں۔ انسانی صحت پر فضائی آلودگی کے اثرات کے بارے میں ڈیٹا اور تحقیق کی کمی صورتحال کو مزید خراب کرتی ہے۔

ہمارے پاس اس مسئلے پر چین اور بھارت کے مقابلے میں قومی سطح پر بات کرنے کی بھی کمی ہے ۔صورتحال سے نمٹنے کے لیے صوبائی دارالحکومت میں آلودگی کی سطح کی نگرانی کے لیے اینٹی اسموگ ا سکواڈز تشکیل دے دیے گئے ہیں۔ پنجاب کے وزیر صحت نے عجیب و غریب دعویٰ کرتے ہوئے کہا کہ صوبے میں گزشتہ دو سال سے کوئی اسموگ نہیں ہے۔

وزیر صحت نے ایف آئی اے کو ہوا کے معیار سے متعلق ڈیٹا جاری کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرنے کو بھی کہا ہے۔ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ وزیر کے خیال میں ہوا کے معیار کے انڈیکس کی اطلاع دے کر ملک کا امیج خراب کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔حکومت کو چاہیے کہ وہ سائبر قوانین کے تحت سوشل میڈیا پر ایئر کوالٹی ڈیٹا جاری کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرنے کے بجائے اسموگ کے بحران سے نمٹنے پر توجہ دے۔

اسموگ کا معاملہ اٹھانے والوں کو ہراساں کرنے کے بجائے ماحول کی حفاظت، تحفظ اور بحالی حکومت کی اولین ذمہ داری ہے۔ جہاں رہائشیوں نے اپنی حالتِ زار کے لیے حکومت کی بے حسی کو مورد الزام ٹھہرایاتاہم وزیر صحت نے فضائی آلودگی کو روکنے کے لیے بھی کارروائی کرنے کا دعویٰ کیاہے۔

شدید اسموگ سے شہریوں کا دم گھٹ رہا ہے اور بچوں کو سانس لینے میں دشواری کا سامنا ہے جبکہ حکام نے رد عمل ظاہر کرنے میں سست روی کا مظاہرہ کیا ہے اور وہ بار بار آنے والے بحران کے لیے کوئی حل یا ہنگامی منصوبہ کرنے میں ناکام رہے۔

وزیراعظم کے ماحولیاتی منصوبے میں فضائی آلودگی کو کم کرنے کی کوششیں شامل ہونی چاہئیں۔ ہمیں ا سموگ کے بحران سے نمٹنے کے لیے خطرات اور حل کے بارے میں شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔

Related Posts