معیشت سونے اور رونے سے درست نہیں ہوگی

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

 معاشی مسائل کی بات کریں یا سیاسی مسائل کا احاطہ، صنعتوں کی بہتری کا معاملہ ہو یا تعلیمی اداروں کی اصلاح ہویامذہبی ٹھیکیداروں کی تصحیح ، یہ گزشتہ 70 سال سے زیر بحث ہے کہ ان مسائل سے پیچھا کیسے چھڑایا جائے لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ سب لوگ اپنےمفاد کیلئے کام کرتے ہیں اور دنیا کو ایسا ظاہر کیا جاتا ہے کہ ان سے بہتر کوئی نہیں ہے اور ساری دنیا خراب ہے۔

اگر دیکھا جائے تو جیسے ایک وکیل اپنے موکل کے دفاع کیلئے کوئی نا کوئی جواز پیدا کرلیتا ہے دیکھا جائے تو ہر شعبہ میں ہر انسان اپنے طریقہ کار کا دفاع کرتے ہوئے اسے سب سے بہتر قرار دیتا ہے اور اس کی نظر میں دوسرے ہمیشہ غلط ہوتے ہیں۔ پاکستان ہو یا دنیا کوئی بھی ملک، آج تک نا وہ غریب ختم کرسکا ہے نہ ہی مذہبی تفریق اور نہ ہی اپنے بچوں کو راہ دکھا سکا ہے جس سے وہ آنیوالے کل میں خوشیاں دیکھیں۔

ہر انسان ایک جنگل کے قانون کے مطابق زندگی بسر کررہا ہے جس میں طاقتور کمزور کو نگل جاتا ہے اور کمزور کی آواز سننے اور دادرسی کرنیوالا کوئی نہیں ہوتا۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ دنیا میں ظالم زیادہ ہیں بلکہ حقیقت میں ظالم کم اور ان سے خوفزدہ ہونیوالے لوگ زیادہ ہیں۔

کوئی سیاستدان سے ڈرتا ہوا بات کرنے گھبراتا ہے تو کوئی مذہبی رہنماؤں کیخلاف لب کشائی سے گریز کرتا ہے ۔ ایک شریف انسان کے اندر کا خوف ظالموں کو مزید طاقت دیتا ہے۔

پاکستان ہی کی مثال لے لیں ۔ یہاں ہر دوسرا شخص مہنگائی کی وجہ سے رورہا ہے لیکن مہنگائی کیخلاف کوئی آواز اٹھاتا ہے نہ آگے بڑھ کر کوئی اقدام کرنے کو تیار ہے۔مذہبی گروپوں کا کوئی بھی ٹولہ جب باہر نکلتا ہے تو جن سے کل تک عوام ڈرتے تھے آج ان سے ریاست بھی خوفزدہ ہے۔

اسی کو مد نظر رکھتے ہوئے اب ہرشعبہ میں بڑے لوگ اپنے سے کمزور کو ڈراتے ہیں اور اپنی من مانی کرتے ہیں۔

معیشت کے ٹھیکیدار سیاسی لوگ ہوتے ہیںجو اپنی معیشت کو بہتر بنانے کیلئے بہت سے قوانین بناتے ہیں مگر بظاہر دنیا کو کہتے ہیں کہ ہم عوام کیلئے قانون سازی کررہے ہیں۔

معیشت کے ماہر ٹھیکیدار جی ڈی پی کی باتیں تو 70 سال سے کررہے ہیں لیکن شومئی قسمت کہ آج تک جی ڈی پی کی شرح نمو11 فیصد سے زیادہ نہیں ہوپائی۔

عام انسان ہمیشہ روٹی،کپڑا اور مکان کی خواہش دل میں لئے دنیا سے چلا جاتا ہے اور ان کی اولاد کی ادائیگی کیلئے پوری عمر کوشاں رہتی ہے۔

یہی حالات ہمارے ملک کے ہیں، ہر حکومت آنیوالی حکومت کیلئے قرضوں کےانبار چھوڑ کر جاتی ہے اور مہنگائی کو ہر دور میں بڑھتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔

تبدیلی کی باتیں ان چند سالوں میں بہت جوش و خروش سے عوام اور پی ٹی آئی کی حکومت کرتی نظر آئی مگر کوئی بھی منصوبہ یا کارکردگی نہ عوام نے دیکھی اور نہ ہی کسی سیاستدان نے اپنے وعدے پورے کئے۔

تبدیلی چاہتے ہیں تو انسانی حقوق کے اوپر کام کریں اور اپنے حق کیلئے آواز اٹھائیں، گھروں میں بیٹھنے اور محفلوں میں باتیں کرنے یا گلی کوچوں کے چھوٹے چھوٹے ٹولوں میں مہنگائی کا رونا رونے والے جب تک ایک جگہ جمع ہوکر کسی ایک نیک لیڈر کے ساتھ اپنی آواز نہیں اٹھائیں گے اس ملک کا کچھ نہیں ہوسکتا۔

اس ایک نیک لیڈر کی تلا ش کریںمگر اسے اتنا بڑا ہیرو نہ بنائیں کہ کل کو وہ بھی عمران خان اور بانی متحدہ کی طرح لیڈر تو بن جائے مگر وقت آنے پر اپنی قوم کو یہ کہے کہ یہ سب قصور تو پچھلی حکومتوں کا ہے اور دنیا کی مہنگائی کی وجہ سے ہم کچھ نہیں کرسکتے۔

چین سے سبق لیں۔ جب دنیا بھر میں مہنگائی ہوئی تب بھی چین میں مہنگائی نہیں پائی گئی، اس کی وجہ چینی قوم اور چینی سیاسی لوگ ہمیشہ منصوبہ بندی سے کام کرتے ہیں تاکہ ان کی عوام کو پریشانی نہ ہو۔

چین نے مہنگائی کا اندازہ اس وقت لگالیا تھا جب دنیا کو مہنگائی بڑھنے کا شائبہ بھی نہیں تھا اور اس وقت تیل ہو یا معیشت سے جڑی کوئی بھی چیز، انہوں نے اس کی خریداری شروع کردی تھی تاکہ جب مہنگائی ہوتو اس کو قابو کرلیا جائے۔

یہ وہ لوگ ہیں جو بارش سے پہلے اپنے گھر سے چھتری لیکر نکلتے ہیں تاکہ اگر بارش ہوتو چھتری کی وجہ سے ان کے کسی کام میں رکاوٹ پیش نہ آئے۔

چین کی معیشت بنانے والے اگلے سو سال کو مدنظر رکھ کر پالیسیاں بناتے ہیں لیکن ہم پاکستان میں اگلے سو روز کیلئے بھی کوئی منصوبہ بندی نہیں کرتے۔

اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے بچوں کا مستقبل واقعی تابناک ہو تو انسانیت کو فروغ دیں اور ظلم سہنے کے بجائے ظلم کے خلاف آواز اٹھائیں۔

Related Posts