مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجی محاصرہ مسلسل129ویں روز بھی جاری رہا

مقبول خبریں

کالمز

zia
برسوں ایران میں رہنے والی اسرائیلی جاسوس خاتون کی کہانی
Philippines, Pakistan, National Day, Dr. Emmanuel Fernandez, bilateral ties, diplomacy, climate change, development, peace, trade, education, cultural exchange, sustainable future, regional cooperation, Mabuhay, Filipino community, Islamabad celebration, soft power, South-South partnerships, innovation, resilience, post-colonial nations, mutual respect, global south
مشترکہ جدوجہد اور روشن مستقبل کی ایک خوبصورت تقریب
Munir-Ahmed-OPED-768x768-1-750x750
روسی کے قومی دن کی خوبصورت تقریب

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

kashmir

سرینگر : مقبوضہ کشمیر میں بدھ کو مسلسل 129ویں روز بھی بھارتی فوجی محاصرہ برقرار رہا جسکی وجہ سے وادی کشمیر اورجموں خطے کے مسلم اکثریتی علاقوں میں غیر یقینی صورتحال بدستور قائم ہے۔

کشمیرمیڈیا سروس کے مطابق مقبوضہ علاقے میں دفعہ 144کے تحت سخت پابندیاں نافذ ہیں ، چپے چپے پر لاکھوں بھارتی فوجی تعینات ہیں جبکہ انٹرنیٹ اورپری پیڈ موبائل فون سروسز بدستور معطل ہیں جسکے سبب معمولات زندگی بری طرح سے مفلوج ہیں ۔

دکانیں صرف صبح کے وقت چند گھنٹوں کیلئے کھولی جاتی ہیں تاکہ لوگ اشیائے ضروریہ خرید سکیں ۔ سکول اور دفاتر ویرانی کا منظر پیش کر رہے ہیں جبکہ سڑکوں پر پبلک ٹرانسپورٹ کم نظر آرہی ہے ۔

لوگ غیر قانونی بھارتی قبضے اور مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے 5اگست کے بھارتی حکومت کے غیر قانونی اور یکطرفہ اقدم کے خلاف اپنے غم و غصے کا اظہار کے لیے سول نافرمانی جاری رکھے ہوئے ہیں۔

دریں اثنا ممتاز کشمیری صحافی اور کشمیر ٹائمز کے ایگزیکٹو ایڈیٹر انورادھا بھسین نے کہا ہے کہ تمام مواصلاتی ذرائع کی معطلی کے باعث مقبوضہ کشمیر میں میڈیا وینٹی لیٹر پرپڑے مریض کی طرح اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے۔

مزید پڑھیں:بھارتی فوجی محاصرے سے مقبوضہ کشمیر میں مذہبی آزادی بری طرح متاثر ہوئی ہے، نیویارک ٹائمز

انورادھا بھاسن نے بھارتی ریاست کیرالہ کے شہر تھر سور میں ’’ کشمیر میں میڈیا کی آزادی ‘‘ کے عنوان سے ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کشمیر میں انٹرنٹ اور موبائل فون سروسز سمیت ذرائع ابلاغ کی بندش کے باعث میڈیا سے وابستہ افراد کو بے انتہا مشکلات کا سامنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ صحافیوں کے لیے سرینگر میں محض ایک میڈیا سینٹر قائم کیا گیا ہے جہاں صرف 6کمپیوٹر دستیاب ہیں۔ انہوں نے کہ مذکورہ سینٹر میں جو انٹرنیٹ مہیا کیا گیا ہے وہ انتہا سست رفتارہے جبکہ سینٹر میں سو کے قریب صحافی انتظامیہ کی کڑی نگرانی میں اپنی اپنی رپورٹس اپنے اداروں کو روانہ کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگرچہ کشمیرمیں میڈیا پر کوئی سرکاری پابندی عائد نہیں ہے لیکن بہت سے صحافی نظربند ہیں ، اخبارات اداریوں کے بغیر شائع ہوتے ہیں ، بہت سے اخبارات کی اشاعت بند ہو چکی ہے جبکہ کچھ اخبارات پمفلٹس کی صورت میں شائع ہوتے ہیں ۔

انہوں نے کہا صورتحال یہ ہے کہ کشمیر میں اس وقت میڈیا بے بسی سے آمرانہ حکومت کے سامنے ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی جمہوریت کے تین ستون کمزور ہوگئے ہیںجبکہ چوتھے ستون ’’ میڈیا ‘‘ کو بھی حکومت نے اپنے زیر کنٹرول کر رکھا ہے۔

انوراھا بھسین نے کہا کہ اس وقت بھارت میں جمہوریت کی جگہ آمرانہ حکومت نے لے لی ہے جو خود پر تنقید برداشت نہیں کر رہی ۔ انہوں نے مزید کہا کہ ذرائع ابلاغ سے وابستہ افراد کو بھارت اور مقبوضہ کشمیر میں دھمکیوں ، حملوں ، مقدمات حتیٰ کہ ملک بدری کا بھی سامنا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ آزادی صحافت کی فہرست میں بھارت 140 ویں نمبر پر آگیا ہے۔

Related Posts