صوبہ سندھ کا یومِ ثقافت اور وادئ مہران سے وابستہ تاریخی حقائق

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

صوبہ سندھ کا یومِ ثقافت اور وادئ مہران سے وابستہ تاریخی حقائق
صوبہ سندھ کا یومِ ثقافت اور وادئ مہران سے وابستہ تاریخی حقائق

صوبہ سندھ میں آج یومِ ثقافت منایا جارہا ہے جس کا آغاز سن 2009ء میں ہوا تھا جبکہ صدیوں پرانی وادئ مہران کی تہذیب آج بھی اپنی رنگا رنگ خصوصیات، منفرد روایات اور متنوع اوصاف کے باعث دنیا بھر کی توجہ کا مرکز ہے۔

محمد بن قاسم نے ہندوحکمران راجہ داہر کو شکست دے کر وادئ مہران میں قدم رکھا اور اسے باب الاسلام کا درجہ دے کر برصغیر کی تاریخ میں امر کردیا۔ آئیے سندھی ٹوپی اجرک ڈے کے موقعے پر سندھ سے وابستہ کچھ تاریخی حقائق کا جائزہ لیتے ہیں۔

 باب الاسلام سندھ کی تاریخ

بعض تاریخی روایات کے مطابق صوبہ سندھ کا نام دریائے سندھ سے مستعار لیا گیا۔ سندھو ہندوؤں کی قدیم زبان سنسکرت کا لفظ ہے جس سے لفظ سندھ اخذ کیا گیا تاہم آگے چل کر یہ علاقہ باب الاسلام کہلایا۔ 

یہ جادوئی الفاظ صوبہ سندھ کو پاکستان کے دیگر صوبوں سے ممتاز کرتے ہیں کہ یہ باب الاسلام یعنی اسلام کا دروازہ ہے اور یہیں سے اسلام پاکستان اور بھارت کے دیگر صوبوں اور شہروں میں پھیلا۔

سب سے پہلے قرآنِ پاک کا ترجمہ سندھی زبان میں کیا گیا تھا جس سے سندھی زبان کو ایک ممتاز حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ اگر سندھی رسم الخط پر غور کیا جائے تو یہ عربی کے خط سے ملتا جلتا محسوس ہوتا ہے۔

تاریخی اعتبار سے سندھ ہزاروں سال پرانی تہذیب رکھتا ہے۔ دراڑوی آباد کاروں نے تقریباً 4 ہزار قبلِ مسیح میں سندھ میں مستقل رہائش اختیار کی۔ یہ لوگ مختلف علوم و فنون کے بہترین ماہر مانے جاتے ہیں۔ خاص طور پر تجارت اور کاشتکاری ان کا اہم ورثہ سمجھا جاتا تھا۔

قبلِ مسیح کے دور میں بھی سندھ دنیا کی مہذب اور جدید ترین تہذیب مانی جاتی تھی کیونکہ 5 ہزار سال قبل مسیح میں سندھ فنی و علمی اور تجارتی لحاظ سے آشوری، مصری وار سامی تہذیبوں کے شانہ بشانہ رہا۔

موہن جو داڑو، ہڑپہ اور دیگر آثارِ قدیمہ کیوں تباہ ہوئے؟ اس پر اختلاف ہے تاہم آریا قوم یہاں ہندی اور آریائی تہذیب کی بنیاد ڈالنے والی اہم قوم سمجھی جاتی ہے جس نے 1500 قبلِ مسیح میں اپنا عروج دیکھا۔ آج بھی آریا قوم کے نقوش ہندوستان اور پاکستان کے علاقوں کی ثقافت و روایات پر بہت گہرے ہیں۔ 

سندھ پر محمد بن قاسم کا حملہ اور اسلام کی آمد

بنو امیہ کے سپہ سالار حجاج بن یوسف کے بھتیجےمحمد بن قاسم نے صرف 17 سال کی عمر میں سندھ کو فتح کیا۔ محمد بن قاسم نے سن 694ء میں طائف میں آنکھ کھولی۔

محض 17 سال کی عمر میں سپہ سالار کی حیثیت سے سندھ کو فتح کرنے والے محمد بن قاسم کی فتوحات 711ء میں شروع ہوئیں۔ انہوں نے ملتان سمیت سندھ کے اہم علاقے فتح کیے تاہم شمالی ہند کی طرف نہ بڑھ سکے۔ حالات ہی کچھ ایسے تھے۔

تقریباً 4 سال کا عرصہ محمد بن قاسم نے سندھ میں گزارا ہے جہاں سلطنت کے اعلیٰ انتظام اور نظامِ حکومت کی بنیاد ڈال کر انصاف کے تقاضوں کو پورا کیا۔ رواداری، عدل و انصاف اور ظلم کا خاتمہ محمد بن قاسم کی اہم ترجیحات رہیں۔ 

قدیم و جدید کا حسین امتزاج 

حیرت انگیز بات یہ بھی ہے کہ صوبہ سندھ ایک طرف برصغیر کا قدیم ترین تہذیبی ورثہ رکھتا ہے جبکہ دوسری جانب روشنیوں کا شہر کراچی آج اس کا دارالحکومت ہے جہاں جدید ترین معاشی و صنعتی سرگرمیاں سرانجام دی جاتی ہیں۔

تہذیب و ثقافت کے ساتھ ساتھ صنعتی و معاشی سرگرمیوں کا امتزاج صوبہ سندھ کو قدیم و جدید کی دو الگ الگ دنیاؤں میں ایک منفرد اور ممتاز مقام عطا کرتا ہے اور سندھ کے لوگ اس پر بجا طور پر خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔ 

مہمان نوازی اور وسعتِ قلبی

وڈیرہ شاہی کے مظالم، تعلیم کی کمی اور دیہاتی علاقوں کی پسماندگی اپنی جگہ لیکن صوبہ سندھ کے عوام کی مہمان نوازی، کشادہ دلی اور وسعتِ قلبی سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔

سندھی عوام مہمانوں کو خدا کی رحمت سمجھتے ہیں اور ان کیلئے ہر ممکن وضعداری، مہمان نوازی اور قیام و طعام کا بندوبست کرکے خوشی محسوس کرتے ہیں۔ یہ اعلیٰ ظرفی خاص طور پر سندھ کے دیہات میں آج بھی بے حد عام ہے۔ 

دیگر صوبوں سے نمایاں مقام 

بلاشبہ پاکستان کا ہر صوبہ اپنی ایک الگ اہمیت اور افادیت رکھتا ہے لیکن اگر صوبہ سندھ کی بات کی جائے تو یہ صوبہ دیگر صوبوں سے ایک بات میں آج بھی ایک اہم اور نمایاں مقام رکھتا ہے جس کی تعریف یہاں ضروری محسوس ہوتی ہے۔

صدیوں پرانی تہذیب کے امین سندھی لوگ اپنی زبان اور ثقافت کو دیگر صوبوں کے مقابلے میں زیادہ اہم اور نمایاں مقام دیتے نظر آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہم سندھی ٹوپی اور اجرک ڈے کی بات تو کرتے ہیں، کہیں پنجابی، بلوچی یا بلوچی ڈے کا ذکر سننے کو نہیں ملتا۔

اپنی زبان اور تہذیب سے محبت کا اظہار دراصل پاکستان سے محبت اور وطن سے جاں نثاری ہی کا دوسرا رخ ہے کیونکہ ملک کا ہر صوبہ وفاق سے منسلک ہو کر ہی عالمی سطح پر اپنی پہچان برقرار رکھ سکتا ہے۔

سندھی ٹوپی اور اجرک ڈے 

اجرک سندھ میں پہنی جانے والی مخصوص رنگ اور ڈیزائن سے تیار کردہ روایتی چادر ہوتی ہے جو سردی ہو یا گرمی، سندھی عوام ہر حال میں اپنے جسم پر اوڑھے رکھتے ہیں اور اسے سندھی روایات کا اہم حصہ سمجھتے ہیں۔

اسی طرح سندھی ٹوپی کی بات کی جائے تو یہ رنگ برنگی ٹوپی کم و بیش ہر سندھی بچے اور بڑے کے سر کا تاج بن کر چمکتی نظر آتی ہے۔ سندھ کے لوگ اپنی دستار اور ٹوپی کو بے حد اہمیت دیتے ہیں۔

ہر سال یہ دن مناتے ہوئے نوجوانوں کی ٹولیاں گھروں سے سندھی ٹوپی اور اجرک پہن کر باہر نکلتی ہیں۔ سندھی لوک گیت سنے جاتے ہیں، سندھی دھنوں پر رقص کیا جاتا ہے اور اپنی تہذیب و ثقافت سے محبت کا اظہار کیا جاتا ہے۔

دوسری جانب خواتین بھی سندھی ٹوپی اور اجرک ڈے کے موقعے پر ہاتھوں پر مہندی لگا کر مختلف تقریبات کا حصہ بنتی ہیں۔ گھروں پر ڈھول کی تھاپ پر مختلف سندھی گانے گا کر بھی مسرت کا اظہار کیا جاتا ہے۔ 

ریلیاں، جلسے جلوس اور تقریبات بھی منعقد کی جاتی ہیں جن کے دوران صوبہ سندھ کی تاریخی و ثقافتی اہمیت اور عوام کی اپنی روایات اور ثقافت سے محبت کو اجاگر کیا جاتا ہے۔ ہر سال ایسی تقریبات کا انعقاد سندھ کے باسیوں کو اپنی تاریخ سے منسلک رکھتا ہے۔ 

Related Posts