شہباز شریف پارٹی اختلافات پر توجہ دیں

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

مسلم لیگ ن کے مرکزی صدر کی جانب سے مریم اورنگزیب کی موجودگی میں اپنے لئے الگ سے ترجمان مقرر کرنے کے فیصلے نے پارٹی کے اندر موجود اختلافات اور دراڑ کو مزید گہرا کردیا ہے۔یہ اقدام افسوسناک قرار دیا جاسکتا ہے کہ اپنی کی جماعت کے صدر کا موقف بیان کرنے کیلئے پارٹی میں کوئی ترجمان نہیں ہے۔

موجودہ صورتحال میں ایک اور چیز واضح ہوکر سامنے آئی ہے کہ ن لیگ اور شہبازشریف کا بیانیہ الگ الگ ہے۔شہباز شریف نے پی ڈی ایم کے کراچی میں ہونے والے جلسے میں قومی مسائل کے حل کیلئے متفقہ قومی حکومت کی تشکیل کا مطالبہ کرکے پارٹی میں مزید اختلافات پیدا کردیئے ہیں کیونکہ گزشتہ روز نوازشریف کی صاحبزادی اور ن لیگ کی نائب صدر مریم نواز نے شہبازشریف کے بیان کی تردید کی بلکہ انہوں نے دونوں کی راہیں الگ الگ ہونے کی افواہوں پر مہر لگادی ہے۔

شہبازشریف کے قومی حکومت کے قیام کے خیال کو نوازشریف کی تائید حاصل ہے نہ ہی دیگر ساتھیوں کی حمایت اور شہبازشریف کی مفاہمت کی سیاست کو ان کی اپنی ہی جماعت میں سخت مزاحمت کا سامنا ہے تاہم یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ موجودہ حکومت کے 3 سال مکمل ہونے کے بعد شہبازشریف نے بالآخر قومی حکومت کے قیام کی تجویز کیوں دی۔

قومی حکومت کا تصور کوئی نیا نہیں ہے لیکن اس نظریئے پر عملدرآمد کم ہی ہوتا ہے اوراس خیال کواپوزیشن جماعتوں کے درمیان پذیرائی حاصل کرنے کا امکان نہیں ہے تاہم اب شہبازشریف کو ممکنہ طور پر اپنے نئے ترجمان کے ذریعے وضاحت جاری کرنا ہوگی۔

پیپلز پارٹی پی ڈی ایم سے علیحدگی اختیار کرچکی ہے جبکہ مولانا فضل الرحمان سخت موقف اپنائے ہوئے ہیں ایسے میں مسلم لیگ ن کو پالیسی بیان جاری کرنے سے پہلے اپنی صفوں میں اتفاق رائے پیدا کرنا چاہیے۔

شہباز شریف کو اگلے الیکشن کی حکمت عملی پر توجہ دینی چاہیے یا حکومت کی کوتاہیوں کی نشاندہی کرنی چاہیے اس سے قطع نظر ان کو پہلے اپنی پارٹی کے اندر موجود اختلافات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

Related Posts