کراچی: سندھ ہائی کورٹ کے آئینی بینچ نے بلدیہ فیکٹری آتشزدگی کیس کے مرکزی ملزم حماد صدیقی کی واپسی کے لیے کیے گئے اقدامات پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے۔
پیر کے روز جسٹس محمد کریم خان آغا کی سربراہی میں قائم بینچ نے مقدمے کی سماعت کے دوران سوال اٹھایا کہ عدالت کے احکامات کے باوجود266 افراد کی ہلاکت کے ذمہ دار ملزم کو واپس کیوں نہیں لایا گیا۔ عدالت نے استفسار کیا کہ حماد صدیقی اور دیگر ملزمان، جن کے خلاف سنگین الزامات ہیں، کو کون پناہ فراہم کر رہا ہے؟
عدالت نے مزید کہا کہ حماد صدیقی کے قومی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کی بلاکنگ کا حکم جاری کیا گیا تھا اور اس سلسلے میں کیے گئے اقدامات کی تفصیلات طلب کیں۔
سندھ کے اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ملزم کو واپس لانے کی ذمہ داری وفاقی حکومت کی ہے جس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ یہ وزارت داخلہ کی نااہلی ہے۔
11 ستمبر 2012 کو کراچی کے بلدیہ ٹاؤن میں فیکٹری آتشزدگی کے واقعے میں 260 سے زائد افراد جان کی بازی ہار گئے تھے۔ عدالت نے مرکزی ملزم حماد صدیقی، تقی حیدر شاہ اور خرم نثار کے پاسپورٹ اور قومی شناختی کارڈ بلاک کرنے کا حکم دیا تھا۔
یاد رہے کہ انسداد دہشت گردی کی عدالت نے 22 ستمبر 2020 کو بلدیہ فیکٹری آتشزدگی کیس میں زبیر عرف چریا اور عبد الرحمن عرف بھولا کو سزائے موت سنائی تھی جبکہ فیکٹری کے چار ملازمین شاہ رخ، فضل احمد، ارشد محمود، اور علی محمد کو عمر قید کی سزا دی گئی تھی۔ سزا کے دوران ایک مجرم فضل احمد کا انتقال ہو چکا ہے۔
حماد صدیقی جو متحدہ قومی موومنٹ کے سابق رکن ہیں، کو دبئی میں گرفتار کیا گیا تھا لیکن انہیں تاحال پاکستان واپس نہیں لایا جا سکا۔ عدالت نے وفاقی حکومت کو اس معاملے میں مزید اقدامات کرنے کا حکم دیا ہے۔