ایسا محسوس ہورہا ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو ایک دھچکا لگا ہے۔ سعودی عرب کی زیرقیادت او آئی سی کی جانب سے کشمیر سے متعلق اجلاس منعقد کرنے میں ناکامی پر پاکستان کو مایوسی ہوئی ہے اور اس کے بعد ایک الگ سمت کی جانب اشارہ ہورہا ہے۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا اس حوالے بیان حیران کن تھا انہوں نے مقبوضہ کشمیر پر پاکستان کے مؤقف کی حمایت نہ کرنے پر اپنے مضبوط حلیف کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ اب پاکستان دنیا کو کشمیر کے حوالے سے ایک متفقہ پیغام دینے کے لئے اجلاس کے لئے زور دے رہا ہے۔جبکہ عالمی دنیا ہندوستان کے ساتھ اپنے بڑھتے ہوئے معاشی اور تجارتی تعلقات کے باعث ہچکچاہٹ کا شکار ہے۔
پاکستان نے 5 اگست کو کشمیر میں بھارتی جارحیت کی عالمی سطح پر نشاندہی کی،لیکن وہ پچھلے ایک سال سے او آئی سی کو ایک اجلاس منعقد کرنے پر راضی کرنے میں ناکام رہا ہے۔ اب پاکستان نے کشمیر پر تاخیر ی حربے اور حکمت عملی پرخاموشی توڑتے ہوئے خود ہی اجلاس بلانے کا فیصلہ کیا ہے،چاہے سعودیہ اس میں شامل ہو یا نہ ہو۔
یہ سعودی عرب کے ساتھ پاکستان کے تعلقات میں ایک اہم تبدیلی ہوسکتی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کو اس وقت شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا جب وہ ریاض کے شدید دباؤ کے بعد ملائشیا کے وزیر اعظم مہاتیر محمد کی جانب سے بلائے گئے اجلاس میں شریک نہیں ہوئے تھے، پاکستان کو ترکی، ملائشیا اور قطر کی حمایت حاصل ہے لیکن مسئلہ کشمیر پر سعودی عرب کی جانب سے قائدانہ کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔
جب 5 اگست کو پاکستان بھارتی مظالم اور کشمیر کو بھارت میں ضم کرنے کیخلاف ریلیاں نکال رہا تھا، تو مودی نے بابری مسجد کے مقام پر رام مندر کی بنیاد رکھی۔ یہ برصغیر پاک و ہند میں تناؤ کا دن تھا، ہندوستانی تنازعات سے مشتعل، پاکستان چاہتا ہے کہ کشمیریوں کی حالت زار کو اجاگر کرنے میں مسلم ممالک کا زیادہ سے زیادہ کردار ہو۔
ملتوی ادائیگیوں اور بیل آؤٹ پر تیل خریدنے سمیت سیاسی اور معاشی حمایت کے لئے پاکستان نے سعودی عرب پر انحصار کیا۔ کہا جارہا ہے کہ پاکستان نے قبل از وقت ہی سعودی عرب کو ایک بلین ڈالر کا قرض ادا کیا ہے۔ در حقیقت، سعودیوں کو ادائیگی کے لئے پاکستان کو چینیوں سے قرض لینا پڑا جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت تیل سے مالا مال قوم پر انحصار کوکم کرنا چاہتی ہے۔
شاہ محمود قریشی نے اس بات کی تردید کی ہے کہ ہماری سعودی عرب کے ساتھ کوئی رنجش ہے، ان کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک کے درمیان برادرانہ تعلقات ہیں، لیکن دفتر خارجہ نے کشمیر کے بارے میں اجلاس منعقد کرنے کے مطالبے کا اعادہ کیا ہے۔ اگر پاکستان سعودی عرب کے بغیر آگے بڑھتا ہے تو پھر یہ پالیسی میں بہت بڑی تبدیلی ہوگی، پاکستان کی اصل شکایت یہ ہے کہ اسے کشمیر سے متعلق سعودی عرب کی متوقع حمایت نہیں ملی ہے۔