کراچی: سینٹ انتخابات میں سندھ اسمبلی کی کل 11 نشستوں پر ہونے والے انتخابات میں کامیابی کے لیے سیاسی جماعتوں نے رابطے شروع کردیے، جوڑ توڑ کی سیاست کیلیے سندھ اسمبلی میں ہونے والے 11 نشستوں کے انتخابات میں ارکان سندھ اسمبلی کے ووٹ کی مبینہ قیمت 2 کروڑ روپے فکس کر دی گئی۔
با خبر ذرائع کا کہنا ہے کہ اس بار 2 بڑی سیاسی جماعتیں پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے بھاری اخراجات ہو سکتے ہیں۔ پیپلز پارٹی سندھ اسمبلی میں سب سے زیادہ 96 نشستوں کے ساتھ سندھ اسمبلی سینٹ کے انتخابات کے لیے 7 جرنل نشستوں میں سے 4 با آسانی جیت سکتی ہے۔
جبکہ ایک ٹیکنو کریٹ اور ایک خواتین کی مخصوص نشست بھی شامل ہے، اس طرح کل 6 نشستیں پی پی پی کے نام ہو جائیں گی۔دوسری طرف 65 نشستوں کے ساتھ گرینڈ اپوزیشن ہے، جس میں پی ٹی آئی کی سندھ اسمبلی میں 30 نشستیں ہیں، ایم کیو ایم پاکستان کی 21 نشستیں ہیں اور گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کی 14 نشستیں ہیں۔
اس طرح اگر پی ٹی آئی کو ایک جنرل، ایک خواتین اور ایک ٹیکنو کریٹ نشست میں سے ایک مل سکتی ہے۔ جبکہ ایم کیو ایم کو سینٹ کی ایک جنرل نشست، ایک ٹیکنو کریٹ اور ایک خواتین کی مخصوص نشست میں سے ایک ملنے کا امکان ہے۔
گرینڈ اپوزیشن کی کل 65 نشستوں میں سے اگر 9 ووٹ منحرف ہوکر پیپلز پارٹی کو مل گئے تو اس اتحاد کو 3 سینٹ کی نشستوں سے ہاتھ دھونا پڑ سکتا ہے، جبکہ گرینڈ اپوزیشن کے اگر 4ارکان سندھ اسمبلی منحرف ہو کر پیپلز پارٹی کے سینٹ امیدوار کو ووٹ دے دیتے ہیں تو 3 جرنل نشستون میں سے ایک پیپلز پارٹی کے امیدوار کے کھاتے میں چلی جائے گی۔
صرف 2 نشستیں پوری گرینڈ اپوزیشن کو مل سکیں گی۔سینٹ انتخابات مین سندب اسمبلی مین زبردست جوڑ توڑ کا امکان ہے کیوں کہ ایم یو ایم کے ارکان اسمبلی اب با آسانی منحرف ہو جاتے ہیں، جیسا کہ گزشتہ 2018 کے سینٹ کے انتخابات میں سندھ اسمبلی میں 50 ارکان کے باوجود فروغ نسیم با مشکل کامیاب ہو سکے تھے جبکہ ان کی اور دوسرے ایم کیو ایم امیدوار کی نشستیں پکی تھیں۔
تاہم ایم کیو ایم کے ارکان سندھ اسمبلی ہارس ٹریڈنگ کے باعث منحرف ہو گئے تھے۔اور مرتضیٰ وہاب صرف 2 ووٹ سے ناکام ہو گئے تھے، ورنہ فروغ نسیم بھی سینٹ کی نشست سے محروم ہو جاتے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آئندہ سینٹ انتخابات میں سیاسی مفاہمت کے ماہر سابق صدر آصف علی زرداری سینٹ میں پی پی نشستیں بڑھانے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ سینٹ انتخابات مین پی ٹی آئی کی شکست اور کم نشستوں پر کامیابی پی ٹی آئی کے مستقبل کا فیصلہ کردے گی، اس لیے پاکستان تحریک انصاف بھی ایڑی چوٹی کا زور لگائے گی۔ سیاسی پنڈتوں کا کہنا ہے کہ سندھ اسمبلی میں سینٹ انتخابات میں پی پی اور پی ٹی آئی براہ راست مقابلے پر ہیں اور دونوں جماعتیں جوڑ توڑ کے ماہر سینئر سیاستدانوں کے ساتھ میدان میں اتر رہی ہیں۔
پی ٹی آئی کی جانب سے ہاتھ اٹھا کر ظاہری ووٹ دینے سے بھی ہارس ٹریڈنگ یا پارٹی سے انحراف کر کے اپنی مرضی سے ووٹ دینے پر بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا، کیوں کہ آئین کے تحت اس انتخابات مین ووٹر کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی بھی امیدوار کو ووٹ دے سکتا ہے چاہے وہ جس جماعت سے ہے اور اس کی جماعت کسی دوسرے امیدوار کو ووٹ دینے کا کہے۔
ایسی صورت میں اگر ظاہری بھی اپنی جماعت کے مخالف کسی امیدوار کو ووٹ دے گا تب بھی وہ ووٹ تسلیم کیا جائے گا اور اس کی اہلیت پر آئینی طور پرکوئی فرق نہیں پڑے گا۔ سو اس طرح سیاسی پنڈتوں کی جانب سے کھلی ہارس ٹریڈنگ ہونے کا اکمان ظاہر کیا جا رہا ہے۔
ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی اپنے امیدوار رزاق داود کی کمیابی کیلیے ایڑی چوٹی کا زور لگائے گی، ذرائع کا کہنا ہے کہ رزاق داود کو مالی طور پر باھری اخراجات اٹھانا پڑ سکتے ہیں۔