اسلام آباد: سپریم کورٹ نے وزیر اعلیٰ کے انتخاب سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دئیے ہیں کہ پارلیمانی پارٹی کا اختیار نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، نہ ہی مقدمے کا فیصلہ یکطرفہ طور پر کیا جاسکتا ہے۔
تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ ججز کا 3 رکنی بینچ وزیر اعلیٰ کے انتخاب میں ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ کے خلاف اسپیکر پنجاب اسمبلی کی درخواست کی سماعت کر رہا ہے۔
سابق صدر سپریم کورٹ بار لطیف آفریدی سماعت کے آغاز پر روسٹرم پر آئے اور کہا کہ موجودہ صورتحال میں تمام بارکونسلز سپریم کورٹ سے مطالبہ کرتی ہیں کہ زیر سماعت مقدمے کو سننے کیلئے فل کورٹ بینچ بنایا جائے۔
لطیف آفریدی کے مطالبے پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عدالت آپ کی شکر گزار ہے کہ آپ نے معاملہ ہمارے سامنے رکھ دیا جبکہ کیس سپریم کورٹ کی 63اے پر دی گئی رائے کی بنیاد پر فائل کیا گیا ہے۔
ریمارکس کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ مقدمے کا یکطرفہ فیصلہ نہیں ہوسکتا۔ 10 سابق صدور کے کہنے پر بھی فیصلہ نہیں ہوسکتا۔ طرفین کو سننا ضروری ہے۔ ابتدائی کیس کی سماعت کر لیں، باقی معاملات بعد میں سامنے آئیں گے۔
ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی دوست محمد مزاری کے وکیل عرفان قادر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ وقت آگیا ہے کہ فل کورٹ بینچ بنایا جائے۔ اضطراب اس لیے پایا جاتا ہے کہ کیس کی سماعت وہی ججز کر رہے ہیں جنہوں نے پہلے فیصلہ دیا تھا۔
وکیل عرفان قادر سے عدالت کا 23 جولائی کا فیصلہ سننے کے بعد چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ آپ کا سوال یہ ہے کہ آرٹیکل 63 اے میں پارلیمانی پارٹی یا سربراہ کا کہا گیا۔ عرفان قادر نے کہا کہ سوال آپ کا ہے جس پر خصوصی بینچ بنا۔
عرفان قادر نے کہا کہ قانوناً سوال یہ ہے کہ پارلیمانی پارٹی اور پارٹی سربراہ کا مؤقف الگ الگ ہو تو پھر کیا کیا جائے گا؟ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ آرٹیکل 63 اے پڑھیں تو پارٹی سربراہ اور پارلیمانی پارٹی دونوں کا ذکر ملتا ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ عدالتی فیصلے کے جس نقطے کا حوالہ ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری نے دیا، وہ بتائیں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کے وکیل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ نقطہ یہ ہے کہ پارٹی پالیسی کے خلاف دیا گیا ووٹ مسترد تصور ہوگا۔
منصور اعوان نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے پارٹی سربراہ کا ذکر کرتا ہے۔ جسٹس عظمت سعید نے جو فیصلہ کیا، اس کے تحت سارے فیصلہ پارٹی سربراہ کو کرنے ہوتے ہیں۔ عدالت نے استفسار کیا کہ ڈپٹی اسپیکر کا انحصار سپریم کورٹ فیصلے کے کس حصے پر تھا؟
انہوں نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر نے سپریم کورٹ کے آرٹیکل 63 اے پر عدالتی فیصلے کے تیسرے پیرا گراف پر انحصار کر لیا۔ جسٹس عظمت سعید کا بینچ 8 رکنی تھا۔ جسٹس منیب کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ لارجر بینچ کے فیصلے کے ہم من و عن پابند نہیں۔