اسپیکر رولنگ از خود نوٹس، کیا سپریم کورٹ کا فیصلہ حکومت کے خلاف ہوگا؟

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

اسپیکر رولنگ از خود نوٹس، کیا سپریم کورٹ کا فیصلہ حکومت کے خلاف ہوگا؟

عمران خان ملکی تاریخ کے وہ واحد وزیر اعظم ہیں جس کا تعلق کرکٹ سے رہا اور شاید یہی وجہ تھی کہ جب انہوں نے 3 اپریل 2022 کو قومی اسمبلی کی تحلیل سے متعلق اعلان کیا تو 1992 کے ورلڈ کپ میں ان کے ساتھی بولر وقار یونس نے اسے ماسٹر اسٹروک کہا۔

وزیر اعظم عمران خان نے 3 اپریل کو جو اقدامات اٹھائے، وہ ملکی تاریخ میں کسی بھی وزیر اعظم نے نہیں اٹھائے۔ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ جو کھیلنے آئے تھے، وہ وکٹیں اکھاڑ کر ساتھ لے گئے ہیں تاہم یہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

دُنیا کے آلودہ ترین شہروں میں پاکستان کے شہر سب سے آگے کیوں ہیں؟

سپریم کورٹ نے 3 اپریل کو ہی ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی رولنگ کا از خود نوٹس لیا اور کیس کی سماعت آج بھی جاری ہے جس کے دوران بہت اہم سوالات اٹھائے گئے۔

قاسم سوری نے کیا کیا؟

ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم خان سوری نے 3 اپریل کو قومی اسمبلی اجلاس کی صدارت کی۔ یہ وہ دن تھا جب وزیر اعظم کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد پر ووٹنگ ہونی تھی۔ سپریم کورٹ کاکہنا ہے کہ عدم اعتماد پر ووٹنگ سے قبل بحث کرانا ضروری ہوتا ہے۔

قاسم خان سوری نے اجلاس کا آغاز ہوا۔ تلاوتِ کلامِ پاک اور نعتِ رسولِ مقبول ﷺ کے بعد وزیرِ اطلاعات و قانون فواد چوہدری نے مختصر تقریر کی اور تحریکِ عدم اعتماد کو غیر ملکی سازش قرار دیا۔ ڈپٹی اسپیکر نے کہا کہ فواد چوہدری نے بالکل ٹھیک کہا۔

ڈپٹی اسپیکر قاسم خان سوری نے قومی اسمبلی اجلاس میں تحریکِ عدم اعتماد پیش کیے جانے سے قبل ہی مسترد کردی اور اجلاس بھی ملتوی کردیا۔ 

عمران خان کا ماسٹر اسٹروک

جیسے ہی قومی اسمبلی اجلاس ختم ہوا، وزیر اعظم نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ میں نے قومی اسمبلی تحلیل کرنے کی تجویز صدرِ مملکت کو بھیج دی ہے۔

اس موقعے پر ایک کرم فرما نے سوال کیا کہ صدرِ مملکت کیا کریں گے، تو راقم کا جواب تھا کہ صدرِ مملکت نے کسی آرڈیننس سے انکار نہیں کیا، یہ تو تحریکِ عدم اعتماد ہے، انکار کیسے ہوگا؟ اور یہی ہوا۔ صدر مملکت نے قومی اسمبلی تحلیل کردی۔

سپریم کورٹ کا نوٹس اور سماعت 

اپوزیشن کے متعدد رہنما جو پہلے وزیر اعظم سے استعفے کا مطالبہ کرتے دکھائی دیتے تھے، اب قومی اسمبلی بحال کرنے کا مطالبہ کرنے لگے۔ اس کے پیچھے شاید یہ وجہ ہوسکتی ہے کہ قومی اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد عوام سے ووٹ لینا خاصا دل گردے کا کام ہے۔

خیر، سپریم کورٹ نے واقعے کا نوٹس لے لیا اور 3 اپریل سے لے کر اب تک اس کیس کی سماعت جاری ہے۔ معزز ججز بار بار یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ ڈپٹی اسپیکر نے جو اقدام اٹھایا، اس کی آئینی حیثیت اپوزیشن اور حکومت کی نظر میں کیا ہے؟ 

آج کی سماعت میں کیا ہوا؟

آج صدرِ مملکت کے وکیل علی ظفر کے دلائل مکمل ہوئے۔ وزیر اعظم کے وکیل امتیاز صدیقی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدالت ماضی میں اسمبلی کارروائی میں مداخلت سے اجتناب کرتی رہی ہے۔ایوان کی کارروائی عدلیہ کے اختیار سے باہر ہے۔

وکیل امتیاز صدیقی نے کہا کہ اپوزیشن نے ڈپٹی اسپیکر کی صدارت پر اعتراض نہیں کیا تھا۔ قاسم سوری نے اپنے ذہن کے مطابق جو بہتر سمجھا، وہ فیصلہ کر لیا۔ اس پر وہ عدالت کو جوابدہ نہیں۔ سپریم کورٹ نے کہا قانون یہی ہے پارلیمانی کارروائی کے استحقاق کا فیصلہ عدالت کرے گی۔ کارروائی کو کتنا استحقاق حاصل ہے، جائزہ لینا ہے۔

نعیم بخاری کے دلائل 

اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے وکیل نعیم بخاری نے کہا کہ پوائنٹ آف آرڈر تحریکِ عدم اعتماد میں نہ لیے جانے کا سوال ہوا تھا جبکہ یہ ہر موقعے پر لیا جاسکتا ہے۔ عدالت نے پوچھا ڈپٹی اسپیکر کے پاس رولنگ کیلئے کیا مواد تھا؟ نعیم بخاری نے کہا گزارشات فریز کرنے دیجئے۔

وکیل نعیم بخاری نے کہا کہ میں عدالت کے تمام سوالات کے جواب دوں گا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کیا اسپیکر کا عدم اعتماد پر ووٹنگ نہ کرانا آئین کے خلاف ہے؟ نعیم بخاری نے کہا اگر اسپیکر پوائنٹ آف آرڈر مسترد کرتا کیا عدالت تب بھی مداخلت کرتی؟

جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا زیر التواء تحریکِ عدم اعتماد پوائنٹ آف آرڈر پر مسترد کی جاسکتی ہے؟ نعیم بخاری نے کہا کہ ایسا پہلے نہیں ہوا، تاہم اسپیکر اختیار ضرور رکھتا ہے۔ نئے انتخابات کا اعلان ہوچکا۔ معاملہ عوام کے پاس ہے۔ سپریم کورٹ کو یہ معاملہ نہیں دیکھنا چاہئے۔ 

عدالت کا فیصلہ کیا ہوگا؟

آئین یہ کہتا ہے کہ جس طرح چیف جسٹس کے عدالتی فیصلوں میں اسپیکر مخل نہیں ہوسکتا، اسپیکر کی رولنگ پر کوئی عدالت بھی سوال نہیں کرسکتی، تاہم از خود نوٹس کیس میں سپریم کورٹ دراصل یہ طے کرنا چاہتی ہے کہ اسپیکر نے آئین کی کتنی خلاف ورزی کی؟

ایک طرف سپریم کورٹ کے ریمارکس اپوزیشن کے حق میں تو دوسری جانب حکومت کی حمایت میں بھی نظر آتے ہیں۔ عدالت کوئی ایسا فیصلہ کرنا چاہتی ہے کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ اپوزیشن اور حکومت دونوں کے حق میں متوازن فیصلہ بھی آسکتا ہے۔

Related Posts