ہارس ٹریڈنگ، منحرف اراکین کو تاحیات نااہل کرنا سنگین سزا ہے۔سپریم کورٹ

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

پی ٹی آئی کا لانگ مارچ کیخلاف طاقت کا استعمال روکنے کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع
پی ٹی آئی کا لانگ مارچ کیخلاف طاقت کا استعمال روکنے کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کیلئے دائر کیے گئے صدارتی ریفرنس پر ریمارکس دیتے ہوئے قرار دیا ہے کہ ہارس ٹریڈنگ پر منحرف اراکین کو 5 سال کی بجائے تاحیات نااہل کرنا سنگین اور سخت سزا ہے۔

تفصیلات کے مطابق حکومت نے سپریم کورٹ سے آئینِ پاکستان کی دفعہ 63 اے کی تشریح کی استدعا کی تھی جس کیلئے صدارتی ریفرنس دائر کیا گیا۔ آج سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ جس سزا کا تقاضا ہوا، بہت سنگین ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

رمضان المبارک کا پہلا روزہ کب ہوگا، ممکنہ تاریخ سامنے آگئی

سپریم کورٹ کے معزز جج جسٹس جمال مندوخیل نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دئیے کہ تاحیات نااہلی کیلئے الگ تقاضے ہوا کرتے ہیں۔ تاحیات نااہلی جیسی سخت اور سنگین سزا کا اطلاق کیسے کریں؟ چیف جسٹس نے بھی سماعت کی۔

قبل ازیں سپریم کورٹ نے سوال کیا تھا کہ کمالیہ میں تقریر کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا تھا کہ عدلیہ کو ملایا جارہا ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ وزیر اعظم کا بیان ہے کہ یہ بات 1997 سپریم کورٹ حملے کے تناظر میں کہی۔عدلیہ پر یقین اور بھرپور اعتماد ہے۔

چیف جسٹس نے سندھ ہاؤس میں حملے کی رپورٹ طلب کی تھی۔ ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ ملزمان کے وارنٹ گرفتاری حاصل کیے ہیں۔ تحریکِ انصاف کے 2 اراکینِ قومی اسمبلی سمیت تمام ملزمان کو گرفتار کیا جائے گا۔

چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ سندھ ہاؤس حملہ کیس کی رپورٹ کل دوبارہ جمع کروائیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ مجرمانہ سرگرمیوں مں ملوث ہونے پر نااہلی تاحیات ہوتی ہے۔ برے روئیے پر 5سال کی نااہلی ہے۔ سپریم کورت مدت کے تعین کے اسباب سے آگاہ کرے۔

سینئر جج جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کیا اختلاف کرنے سے مراد انحراف لیا جاسکتا ہے؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ اختلاف تو فیصلوں میں ججز کا بھی ہوتا ہے۔ اختلافِ رائے انحراف نہیں ہے۔ رضا ربانی نے اختلاف کیا، لیکن انحراف نہیں کیا تھا۔

عدالتِ عظمیٰ نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے رکنیت ختم کرنے کے الفاظ استعمال کرتا ہے۔ نااہلی کی بات نہیں ہے، جب یہ ہے ہی نہیں تو بات ختم ہوجاتی ہے۔ کیا الیکشن کمیشن تفتیش کرے گا کہ انحراف تھا یا نہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آرٹیکل 63 ثبوت کا تقاضا نہیں کرتا۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ مقدمے میں جو سوالات اٹھائے گئے، یہ بڑی فکری بحث پر مبنی ہیں۔ جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ منحرف رکن کی نااہلی کی مدت کا تعین قومی اسمبلی کرسکتی ہے۔ پارلیمنٹ کے قانون بنانے تک کیا کارروائی کی جائے؟

 

Related Posts