سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں شہریوں کے مقدمات کی تفصیلات طلب کرلیں

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

SC reserves verdict on appeals against military trials of civilians
FILE PHOTO

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے وزارت دفاع کو ہدایت دی کہ وہ فوجی عدالتوں میں شہریوں کے مقدمات کا ڈیٹا فراہم کرے، خاص طور پر ان شہریوں کی تعداد بتائے جن میں بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو شامل نہ ہو۔

جمعرات کو جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں بینچ نے فوجی عدالتوں کے فیصلوں کو چیلنج کرنے والی اندرونی اپیلوں کی سماعت کی۔ بینچ میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مہر، جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس نعیم اختر افغان، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس شاہد بلال حسن شامل تھے۔

سماعت کے دوران وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ جب آئین کے آرٹیکل 8 کے سیکشن 3 کا اطلاق ہوتا ہے تو بنیادی حقوق معطل ہو جاتے ہیں۔

جسٹس نعیم اختر نے ریمارکس دیے کہ آرمی ایکٹ کا اطلاق مسلح افواج کے افسران اور عملے پر ہوتا ہے اور ترمیم سے پہلے ریٹائرڈ افسران کو فوجی عدالتوں میں مقدمے کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔

بیرسٹر گوہر کے آرمی چیف سے رابطوں کی تصدیق، اگلے 3 دن ملک کیلئے انتہائی اہم قرار

اب شہریوں کو بھی فوجی عدالتوں میں شامل کر لیا گیا ہے جس پر تشویش کا اظہار کیا گیا کہ قانون میں “کسی بھی شخص” کی اصطلاح واضح تعریف سے محروم ہے۔ جسٹس اختر نے تجویز دی کہ یہ قانون سازی میں خامی ہو سکتی ہے۔

سپریم کورٹ نے یہ بھی بحث کی کہ فوجی عدالتوں میں مقدمات کیسے چلائے جائیں، جس میں جسٹس حسن اظہر رضوی نے مقدمے کی شواہد کی جانچ کی اہمیت پر زور دیا۔وزارت دفاع کے وکیل نے مقدمات کا ریکارڈ فراہم کرنے سے انکار کر دیا، جس پر عدالت نے تنقید کی۔

خواجہ حارث نے 21 ویں آئینی ترمیم کا حوالہ دیا جس نے فوجی عدالتوں کے دائرہ کار کو روایتی فوجی نظم و ضبط سے بڑھا کر دیگر جرائم تک وسیع کر دیا۔

جسٹس اظہر نے سوال کیا کہ وزارت نے مقدمات کے ریکارڈ فراہم کرنے سے انکار کیوں کیا، اور کہا کہ انصاف کے اصول کے مطابق فیصلہ تمام فریقین کو سننے کے بعد ہی کیا جانا چاہیے۔سماعت کل تک ملتوی کر دی گئی۔

Related Posts