سعودی عرب کے وزیر مملکت برائے خارجہ امور عادل الجبیر نے کہا کہ سعودی عرب تیل اور اوپیک پلس اتحاد کو امریکہ کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال نہیں کرتا۔ انہوں نے اس بات کی تردید کر دی کہ سعودی عرب نے امریکہ کو نقصان پہنچانے کے لیے تیل کی پیداوار میں کمی کی ہے
امریکی چینل ’’فاکس نیوز‘‘ کو انٹرویو میں عادل الجبیر نے مزید کہا “تیل ہماری نظر میں عالمی معیشت کے لیے ایک اہم شے ہے جس میں ہمارا بڑا مفاد ہے۔ لیکن ہم تیل یا اس سے متعلق فیصلوں پر سیاست نہیں کرتے‘‘
یاد رہے اوپیک پلس ممبران نے بدھ 5 اکتوبر کو اپنے اجلاس کے اختتام پر نومبر میں تیل کی پیداوار میں 20 لاکھ بیرل یومیہ کمی کرنے اور 2023 کے آخر تک “اعلان تعاون” کو بڑھانے پر اتفاق کر لیا تھا۔ ساتھ ہی طے کیا گیا تھا کہ وزارتی اجلاس ہر 6 ماہ بعد منعقد کیا جائے گا اور یہ کہ وزارتی مانیٹرنگ کمیٹی ہر دو ماہ بعد اوپیک پلس کے لیے اجلاس کرے گی تاکہ مارکیٹ میں ہونے والی پیش رفت کا جائزہ لیا جا سکے۔
یہ بھی پڑھیں:
آصف علی زرداری کو آخر کیا بیماری لاحق ہے؟
سعودی وزیر مملکت برائے خارجہ امور عادل الجبیر نے کہا “ہم تیل یا اس سے متعلق فیصلوں پر سیاست نہیں کرتے اور تیل کوئی ہتھیار نہیں ہے۔”
امریکہ میں ایندھن کی قیمتوں پر اظہار خیال کرتے ہوئے الجبیر نے نشاندہی کی کہ امریکہ میں ایندھن کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سعودی عرب کی نہیں بلکہ تیل صاف کرنے والی امریکی ریفائنریوں کی پیداوار میں کمی ہے۔
فاکس نیوز سے بات کرتے الجبیر نے مزید کہا کہ امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات سٹریٹجک نوعیت کے ہیں، یہ تعلقات شراکت داری اور اتحاد پر مبنی ہیں۔
اس موقع پر عادل الجبیر نے امریکی تیل کی صنعت کی کمزوری کا بھی حوالہ دیا اور کہا “تمام مناسب احترام کے ساتھ، آپ کے پاس ایندھن کی بلند قیمت 20 سالوں سے آئل ریفائنریوں میں کمی کی وجہ سے ہیں” ۔
الجبیر نے کہا سعودی عرب تیل کی منڈیوں میں استحکام کو یقینی بنانے کے لیے پر عزم ہے۔
واضح رہے تیل کی پیداوار میں کمی کے اوپیک پلس کے فیصلے کے اعلان کے بعد وائٹ ہاؤس نے اس فیصلے پر فوری تنقید کی تھی۔ وائٹ ہاؤس کے اقتصادی مشیر برائن ڈیز نے کہا تھا کہ اوپیک پلس ممالک کے فیصلے کے بعد تیل کی سپلائی کی کمی اب بھی ایک بڑا چیلنج ہے اور واشنگٹن سٹریٹجک آئل ریزرو کے فیصلے سے پیچھے ہٹنے پر غور کر رہا ہے۔