آصف علی زرداری کو آخر کیا بیماری لاحق ہے؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

 سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری پاکستان کی سیاست کے ایک اہم کردار ہیں، بالخصوص حالیہ سیاسی کشمکش میں ان کی حیثیت ایک اہم کھلاڑی کی ہے، جن کے بغیر سیاست کا موجودہ منظر نامہ شاید تشکیل ہی نہ پاتا۔

آصف زرداری کی بیماری کے متعلق قیاس آرائیاں:

سابق صدر زداری جن کی عمر سڑسٹھ سال ہے، مختلف مستقل بیماریوں اور عوارض کا شکار ہیں، جو ہر کچھ عرصے بعد اپنی موجودی کا احساس دلاتے اور میڈیا کو خبر مہیا کرتے رہے ہیں۔ ایک بار پھر اس خبر کے ساتھ کہ آصف زرداری دوبارہ بیمار ہوگئے ہیں، ہر طرف اس حوالے سے قیاس آرائیوں کا بازار گرم ہے کہ وہ کس بیماری کے باعث ایک بار پھر بستر سے لگ گئے ہیں؟

زرداری کی بیماری کا معما:

گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر اطلاعات زیر گردش رہیں کہ سابق صدر کو کینسر اسٹیج فور کا عارضہ لاحق ہوگیا ہے، نیز کہا گیا کہ ان کی بیماری اس حد تک سنگین ہوچکی ہے کہ اس کا علاج پاکستان میں ممکن نہیں ہے، چنانچہ انہیں علاج کی غرض سے بیرون ملک منتقل کیا جا رہا ہے۔

سابق صدر اپنے دوست ڈاکٹر عاصم کے اسپتال میں زیر علاج ہیں۔

تاہم بعد ازاں سوشل میڈیا کی گردشی اطلاع افواہ ثابت ہوئی اور اس بات کی پیپلز پارٹی اور سابق صدر زرداری کے قریبی ذرائع سے تردید آگئی کہ انہیں کینسر لاحق ہے، مگر پبلک میں تاحال یہ واضح نہیں ہوسکا ہے کہ انہیں اصل بیماری کیا ہے؟

زرداری کی بیماری موضوع بحث کیوں بنی؟

اس سے پہلے کہ ہم مختلف رپورٹوں کی روشنی میں اس بات کا جائزہ لیں کہ سابق صدر کس بیماری میں مبتلا ہیں، یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر سابق صدر کی بیماری کے حوالے سے یہ قیاس آرائی اور کنفیوژن کیوں ہے اور آخر ان کی بیماری موجودہ سیاسی صورتحال میں بڑے پیمانے پر زیر بحث کیوں ہے؟

عوامی سطح پر سابق صدر کی بیماری کے حوالے سے قیاس آرائیوں کی وجہ دراصل یہی ہے کہ ان کے قریبی ذرائع بیماری کی تفصیلات کو سخت راز داری اور اخفا میں رکھے ہوئے ہیں، معاملے کو اس قدر راز میں رکھنے کے باعث لوگوں میں یہ خدشہ پیدا ہوا کہ بیماری کو چھپانے کی وجہ یہی ہو سکتی ہے کہ وہ کسی بڑی اور جان لیوا بیماری میں مبتلا ہیں اور یہ کہ ان کی حالت خطرے میں ہے، چنانچہ بیماری کی تفصیل سامنے نہ آنے سے لوگوں کو قیاس آرائیوں کا موقع مل گیا ہے۔

بیماری کی پولیٹکل ڈپلومیسی کیا ہے؟

سابق صدر کی بیماری بڑے پیمانے “ٹاک آف دی ٹاؤن” بننے کی وجہ یہ ہے کہ بیماریوں کو پاکستان کی سیاست میں “پولیٹکل ڈپلومیسی” کیلئے استعمال کیا جاتا رہا ہے، خود سابق صدر زرداری جو ملکی سیاست کے ایک شاطر کھلاڑی کے طور پر جانے جاتے ہیں مختلف مواقع پر بیماری کے ذریعے اپنی سیاسی چالوں کو کیموفلاج کرتے رہے ہیں، اس لیے ان سے متعلق جب بھی بیماری کی خبر آتی ہے تو فورا لوگوں کا خیال کسی نئی سیاسی چال کی طرف منتقل ہوجاتا ہے، تاہم حقیقت یہ ہے کہ اس بار سابق صدر حقیقت میں بیمار پڑ گئے ہیں۔

زرداری کو کینسر نہیں ہے:

اب آتے ہیں اس بات کی طرف کہ سابق صدر زرداری کو آخر بیماری کیا لاحق ہے، کیا واقعی سابق صدر کو سرطان کی بیماری نے آلیا ہے، جیسا کہ سوشل میڈیا پر گزشتہ دنوں یہ افواہیں تیزی سے زیر گردش رہیں۔ اس حوالے سے مختلف صحافتی پلیٹ فارمز پر مختلف رپورٹس شائع ہوچکی ہیں اور کئی اینکرز بھی اپنے چینلز پر گفتگو کر چکے ہیں، جن کا حاصل یہ ہے کہ سابق صدر کے کینسر میں مبتلا ہونے کی خبر جھوٹی ہے۔

آصف زرداری کو لاحق متعدد بیماریاں:

رہی یہ بات کہ سابق صدر کو پھر کیا بیماری ہے، اس سوال کا جواب یہ ہے کہ سابق صدر آصف علی زرداری در اصل طویل عرصے سے دل، شوگر، بی پی اور کمر میں تکلیف جیسے مستقل عوارض کا شکار ہیں۔

 

سابق صدر کے معالجین اور ان کے وکیل کے بیانات کے مطابق ان کے دل میں پہلے ہی تین اسٹنٹ ڈالے جا چکے ہیں، جبکہ وہ آئی اسکیمک نامی بیماری کا بھی شکار ہیں، جس میں  دل کو خون اور آکسیجن کی مطلوبہ مقدار مہیا نہیں ہوتی۔ سابق صدر کی بیماریوں میں سنسری پیریفرل اور آٹونومک نیوروپیتھی جیسے امراض بھی شامل ہیں۔

علاوہ ازیں آصف علی زرداری ریڑھ کی ہڈی میں بھی ایک سے زیادہ تکالیف میں مبتلا ہیں اور ان کے ہاتھوں میں بھی رعشہ ہے۔

زرداری پھیپھڑوں کی بیماری میں مبتلا ہیں:

سابق صدر کورونا سروائیور ہیں، انہیں کچھ عرصہ پہلے کورونا ہوگیا تھا، جس سے وہ صحت یاب ہوئے کافی عرصہ ہو چکا ہے مگر کورونا کے زیر اثر ان کے پھیپھڑوں میں کچھ مسائل رہ گئے ہیں، ڈاکٹروں کے مطابق آج کل ان کے پھیپھڑوں میں ایک بار پھر پانی دیکھا گیا ہے، جس کے باعث وہ اپنے دوست ڈاکٹر عاصم حسین کی نگرانی میں ان کے اسپتال ضیاء الدین اسپتال کراچی میں زیر علاج ہیں۔

اس حوالے سے معروف اینکر سمیع ابراہیم نے اپنے یوٹیوب چینل میں ایک وی لاگ میں بتایا ہے کہ سابق صدر کو ضیاء الدین اسپتال میں انتہائی نگہداشت میں رکھا گیا ہے، ان کے پاس تین سے چار انتہائی قریبی دوست ہی موجود ہوتے ہیں، ان کے علاوہ کسی کو سابق صدر سے ملنے کی اجازت نہیں ہے۔

سمیع ابراہیم کے مطابق سابق صدر کے معائنے کیلئے امریکا کے ایک معروف کلیولینڈ کلینک کی دبئی برانچ کے دو ڈاکٹر خصوصی طور پر ضیاء الدین اسپتال آئے اور اب ان کے فیصلے کی روشنی میں طے کیا جائے گا کہ سابق صدر کو علاج کیلئے کہاں لے جایا جائے۔

Related Posts