کورونا وائرس خدشات کے پیش نظر دارالحکومت ریاض سے سعودی عرب کی حکومت نے انتہائی قدم اٹھا لیا۔ عمرہ زائرین اور سیاحتی ویزوں پر مقدس سرزمین پر قدم رکھنے والوں کا داخلہ بند کرنے کا اعلان کردیا گیا ہے۔
سعودی حکومت سمیت دنیا کے متعدد ممالک کورونا وائرس کے خطرات کے پیش نظر انتہائی اقدامات اٹھانے پر مجبور ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کورونا وائرس کا مسئلہ آخر کب حل ہوگا؟ وائرس کا پھیلاؤ مکمل طور پر کب رکے گا۔
کورونا وائرس کی موجودہ صورتحال
تازہ ترین صورتحال کے مطابق اب تک کورونا وائرس سے 2 ہزار 807 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ 32 ہزار 962 افراد مرض سے شفایاب ہوچکے ہیں جبکہ 8 ہزار 469 افراد کی حالت تشویشناک ہے۔
کورونا وائرس سے پاکستان میں صرف چند ایک افراد متاثر ہوئے ہیں اور حکومت کی طرف سے سب اچھا ہے کی گردان بھی جاری ہے، تاہم وائرس کے پھیلاؤ کی شرح افسوسناک حد تک تیز ہے جس سے بچاؤ اور روک تھام کی ضرورت ہے۔
طفل تسلیاں
کہا جارہا ہے کہ وائرس کے باعث ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد صرف 8 فیصد ہے جبکہ 92 فیصد افراد کورونا وائرس سے متاثر ہونے کے باوجود شفایاب ہوئے۔ یہ صورتحال تسلی بخش ہے اور عوام کو اس سے گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں۔
یہاں ہماری رائے یہ ہے کہ کورونا وائرس کے باعث 8 فیصد ہلاکتیں صرف چین میں ہوئیں۔ چین کو امریکا کے سامنے ابھرتی ہوئی معاشی طاقت کہا جارہا تھا۔ کورونا وائرس نے تو چین کے ساتھ ساتھ برطانوی معیشت کو بھی نہیں چھوڑا۔
ہمسایہ ملک چین کی درآمدات و برآمدات کورونا وائرس پھیلاؤ کے خطرات کے پیش نظر بری طرح متاثر ہوئیں۔ چین کو اسٹاک ایکسچینج سمیت دیگر کاروباری شعبوں میں اربوں ڈالرز کا نقصان ہوا جس کے بعد برطانیہ کی باری آئی۔
کورونا وائرس خطرے کے باعث تاجر برادری نے برطانیہ سے بھی منہ موڑنا شروع کردیا ہے۔ پہلے کورونا وائرس چین سے ہانگ کانگ، فلپائن اور یورپ میں پہنچا۔ کورونا وائرس نے برطانوی معیشت کو بھی تباہ کرنا شروع کردیا ہے۔
ہماری رائے میں حکومتی طفل تسلیوں سے عوام بہل نہیں سکتے۔ چین سے کورونا وائرس دیگر ممالک اور پھر پاکستان کیسے پہنچا، اس کی تحقیقات اور ذمہ داروں کو سزا دینا ضروری ہے جبکہ وائرس کا مزید پھیلاؤ ابھی جاری ہے۔
سعودی حکومت کا اقدام
سعودی وزارتِ صحت نے کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے نئے اصول وضع کیے ہیں۔ یہ واضح نہ کرنے کے باوجود کہ ان اصولوں کا اطلاق کن ممالک پر ہوتا ہے، انہوں نے ایران اور پاکستان سے پروازوں پر پابندی لگا دی ہے۔
ایران اور پاکستان کے ساتھ ساتھ سعودی حکام نے جی سی سی (گلف کو آپریشن کونسل) ممالک کے شہریوں کی آمد ورفت کو بھی معطل کردیا ہے۔
وائرس کے پھیلاؤ کے رجحانات
ماہرینِ صحت کے مطابق کورونا وائرس ہر گزرتے دن کے ساتھ چین کے باہر زیادہ پھیل رہا ہے اور چین میں اس کے پھیلاؤ کی رفتار کم ہوچکی ہے۔ گزشتہ ایک ہفتے سے وائرس سے شفایاب ہونے والوں کی تعداد نئے کیسز سے زیادہ ہے۔
دنیا بھر میں وائرس کے باعث تشویشناک کیسز اور اموات کی شرح کم ہوتی جارہی ہے، تاہم پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کے لیے کورونا جیسے تیزی سے پھیلنے والے وائرس سے بچاؤ انتہائی مشکل ثابت ہوسکتا ہے۔
ان حقائق کا تعین فی الحال باقی ہے کہ چین میں صوبہ ہوبائی سے باہر کن وجوہات کے باعث وائرس کا پھیلاؤ کم رہا۔ اگر پاکستان میں بھی ان حقائق پر تحقیق کی جائے تو وائرس کے پھیلاؤ کو روکا جاسکتا ہے۔
اہم سوالات پر تحقیق کی ضرورت
سعودی حکومت کے انتہائی اقدام کے بعد پاکستان اور ایران سمیت ہر مسلم ملک پر بالخصوص اور دنیا کے ہر ترقی پذیر ملک پر بالعموم یہ لازم ہوگیا ہے کہ چند اہم سوالات کا جواب تلاش کیا جائے۔
سب سے پہلا سوال یہ ہے کہ وہ کون سے عوامل ہیں جن کے باعث کورونا وائرس کا پھیلاؤ اتنی تیزی سے ممکن ہے۔ چین جیسے ملک میں کورونا وائرس کیسے داخل ہوا اور اب چین ان مسائل کا حل کیسے نکال رہا ہے۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ فضائی حدود بند کردی جاتی ہیں۔ آمدورفت پر پابندی عائد کردی جاتی ہے اور ممالک اپنے شہریوں کو چین سے نکال کر ایسی جگہ رکھتے ہیں کہ دیگر شہری محفوظ رہیں۔ اس کے باوجود وائرس کیسے پھیلتا ہے؟
تیسرا اہم سوال یہ ہے کہ کورونا وائرس کا علاج کب تک دریافت کیاجاسکے گا۔ ابتدائی بیانات کے مطابق ماہرین کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کی ویکسین تیار کرنے کیلئے 18 ماہ کا وقت درکار ہے۔یہ عمل تیز کیسے کیا جائے؟
چوتھا سوال یہ ہے کہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا ذمہ دار کون ہے؟ کیونکہ اگر امریکا یا خود چین اسے خود لیبارٹری میں تیار کر رہا تھا تو کورونا وائرس کا پھیلاؤ درحقیقت ایک بائیو حملہ ہے۔ ایسے جنگی جرائم کی روک تھام کیسے کی جائے؟
ہمارا پانچواں سوال یہ ہے کہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک نے کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے کیا اقدامات کیے ہیں کیونکہ پاکستان میں کورونا وائرس کا علاج تو درکنار، تشخیص کی بھی خاطر خواہ سہولیات کا دور دور تک پتہ نہیں۔
پاکستان کو 2 معاملات پر قابو پانے کی ضرورت
کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے حکومت نے سب سے پہلا قدم یہ اٹھایا کہ چین میں پھنسے ہوئے پاکستانی طلباء کو یہاں لانے میں احتیاط برتی، اور پاک چین دوستی نے بھی اس سلسلے میں اہم کردار ادا کیا۔
اس کے باوجود دو اقدامات جن پر پاکستان کو قابو پانے کی ضرورت ہے وہ یہ ہیں کہ ہر طرح کے ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر حکام اس بات پر توجہ دیں کہ کورونا وائرس پاکستان میں مزید نہ پھیلے اور مافیاز کو لگام دی جائے۔
وائرس کو مزید پھیلنے سے روکنے کے لیے کورونا وائرس کے متاثرہ افراد کو عام لوگوں سےالگ رکھا جاسکتا ہے۔ ان کے علاج کے لیے ہمسایہ ملک چین سے معاونت حاصل کی جاسکتی ہے اور اسی طرح کے دیگر ضروری اقدامات اٹھائے جاسکتے ہیں۔
دوسری جانب مافیاز پر قابو پانا ضروری ہے۔ ان میں سرجیکل ماسک کو مہنگا کرنے والا چور مافیا جسے ہم ذخیرہ اندوز اور منافع خور کے نام سے جانتے ہیں، سرِ فہرست ہے۔یہ ہر چیز کو مہنگا کرکے کورونا وائرس کو مکمل طور پر لاعلاج بنا سکتا ہے۔
ایک اور مافیا جسے روکنے کی ضرورت ہے وہ اسمگلر مافیا یا غیر قانونی آمدورفت میں ملوث جرائم پیشہ افراد ہیں۔ اگر آپ فضائی و زمینی آمدورفت روکیں گے تو یہ لوگ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا سبب بن سکتے ہیں۔ انہیں روکنا ضروری ہے۔
اس کے علاوہ حکومت کے ساتھ ساتھ عوام پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ کورونا وائرس کے خلاف احتیاطی تدابیر اپنانے کے ساتھ ساتھ اپنے اردگرد ہر طرح کی مشکوک سرگرمیوں پر نظر رکھیں تاکہ انہیں روکا جائے۔