خواتین سے متعلق متنازعہ بیان، تنقید کے بعدکیا عمران خان یو ٹرن لیں گے؟

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

پاکستان میں جنسی زیادتی کے واقعات میں روز بروز اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے جبکہ عصمت دری کے واقعات کے حوالے سے وزیراعظم عمران خان کے متنازعہ بیان کے بعد ملک میں نئی بحث چھڑ گئی ہے۔

عمران خان کا موقف
3 اپریل کو ٹیلیفون پر عوام کے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے وزیراعظم نے کہا تھا کہ بچوں اور خواتین کے خلاف جرائم تیزی سے پھیل رہے ہیں اور جتنے کیسز رپورٹ ہو رہے ہیں صورتحال اس سے کہیں زیادہ سنگین ہے، وزیراعظم نے کہا کہ جب معاشرے میں فحاشی بڑھ جائے تو اس کا اثر سامنے آتا ہے، اسلام نے اسی لئے پردے کا تصور دیا ہے، اسلام میں پردے کا تصور خاندانی نظام کے تحفظ کیلئے ہے، موبائل فون کے ذریعے بچوں کی ہر طرح کے مواد تک رسائی ہے، ہمیں اپنے معاشرے کو مغربی اور بھارتی ڈراموں اور فلموں کے برے اثرات سے بچانا ہے۔

وزیراعظم کے بیان پر ردعمل
عالمی میڈیا اور نامور شخصیات کا کہنا ہے کہ وزیراعظم پاکستان نے اپنے بیان میں عصمت دری کو فحاشی سے جوڑ کر ایک طرح سے زیادتی کے واقعات کو درست قرار دینے کی کوشش کی ہے ، عمران خان کے بیان پر ان کی سابقہ اہلیہ جمائما گولڈاسمتھ نے بھی اظہار افسوس کیا ہے جبکہ انسانی حقوق کی تنظیموں ،فلمی ستاروں اور سیاسی و سماجی شخصیات نے شدید غم و غصے کا اظہارکیا ہے اور عمران خان سے بیان واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔

مسلم لیگ ن نے وزیر اعظم کے اس بیان کی شدید مذمت کی ہے اور ان سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا ہے۔ دوسری جانب حزب مخالف کی جماعت پیپلز پارٹی کی رکن قومی اسمبلی نفیسہ شاہ نے بھی وزیر اعظم کے اس بیان کی مذمت کرتے ہوئے ان کے بیان کو لاہور پولیس کے سابق سی سی پی او عمر شیخ کے بیان کے ساتھ جوڑا ہے جس میں پولیس افسر نے لاہور سیالکوٹ موٹر وے پر گینگ ریپ کا نشانہ بننے والی خاتون کو اس واقعہ کا ذمہ دار قرار دیا تھا۔

عصمت دری اور لباس
پاکستان میں عصمت دری کے واقعات پر ہمیشہ یہ بحث کی جاتی ہے کہ خواتین کو مردوں کے بغیر باہر نہیں نکلنا چاہیے یا خواتین کی نقل و حرکت محدود کرنے پر بات ہوتی ہے لیکن اس کے برعکس اس زیادتی اور مجرمانہ ذہنیت کے خلاف کوئی بات نہیں ہوتی جس کا خمیازہ خواتین کو بھگتنا پڑ تاہے۔

پاکستان میں عصمت دری کے حوالے سے قوم دوحصوں میں تقسیم ہے، ایک طبقے کا کہنا ہے کہ خواتین کے لباس یا بے احتیاطی کی وجہ سے عصمت دری کے واقعات پیش آتے ہیں تو دوسرا طبقہ یہ کہتا ہے کہ کسی بھی شخص کو کسی راہ چلتی خاتون سے بدسلوکی اور عصمت دری کا اختیار نہیں ہے۔

وزیر اعظم کا ریپ واقعات کو لباس اور پردے سے جوڑنا افسوسناک ہی نہیں بلکہ خطرناک بھی ہے۔کوئی عورت برقع پہنے ہو جینز پہنے ہو، اپنے محرم کے ساتھ ہو یا اکیلی ہو، وہ بھارتی ڈرامے دیکھتی ہو یا ارطغرل ، ہر شخص کی حفاظت کی ذمہ داری ریاست کی ہوتی ہے۔

اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جہاں گھروں میں بھی بہنیں بیٹیاں محفوط نہیں ،لوگ قبر میں دفن مردہ عورت ،اسپتال میں پڑی مریضہ ،برقع پہنے لڑکی ،دارالامان میں رہنے والی ،بس ،اسکول ،آفس بچوں کے ساتھ ماں ،چار ماہ کی بچی ،خواجہ سراء ،خاندان کی عورتوں اور بے زبان جانوروں کو بھی اپنی ہوس اور درندگی کا نشانہ بنانے سے نہیں چوکتے وہاں لباس یا بے احتیاطی کو عصمت دری سے جوڑی قطعی درست نہیں ہے۔

سماجی رویئے
عصمت دری کا شکار ہونیوالے خواتین یا بچیوں سے لباس یامحرم کی غیر موجودگی سے متعلق سوال کرنا متاثرہ کو ملزم قرار دینے کے مترادف ہے اور ہیومن رائٹس کمیشن کا کہنا ہے کہ یک ایسا ملک جہاں پر ریپ کے مقدمات رپورٹ ہونا نہ ہونے کے برابر ہیں وہاں کے وزیر اعظم کی طرف سے اس طرح کا بیان ریپ کا شکار ہونے والی خواتین اور ان کے خاندان کے لیے ان کے زخموں پر نمک پاشی کرنے کے مترادف ہے۔

ریاست قانون بنانے کے ساتھ ساتھ اس پر عملدرآمد بھی کروائے اور عصمت دری کا شکار ہونے والوں متاثرین پر الزام لگانے کے بجائے اپنی سوچ کو تبدیل کیا جائے۔

Related Posts