کراچی: پاکستان قومی اتحاد کے چیئرمین جسٹس (ر) وجیہہ الدین نے نظر ثانی شدہ اسٹیٹ بینک ترمیمی بل کو گزشتہ حکومتی مسودے سے بہتر قرار دیا اور کہا کہ اس میں مزید بہتری کی گنجائش موجود ہے۔
انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ جو موجودہ اسٹیٹ بینک ترمیمی بل حکومت نے قومی اسمبلی میں پیش کیا ہے وہ اس سے قبل کے مسودے سے بالکل مختلف ہے۔
لگتا ہے کہ ماہرین اور سول سوسائٹی کے اعتراضات کو قومی اسمبلی میں پیش کردہ بل میں کسی حد تک ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے، جو خوش آئند ہے۔ پھر بھی کئی باتیں ایسی ہیں جو اب بھی قابل توجہ ہوں گی۔
انہوں نے کہا بے شک رضا باقر موجودہ گورنر، دوہری شہریت کے حامل نہ ہوں مگر قانون میں دوہری شہریت رکھنے والے فرد پر پابندی ضرور ہونی چاہیئے۔
دوئم یہ کہ جیسے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی نے اپنی تجاویز میں کہا ہے کہ مدت ملازمت ختم ہونے کے بعد گورنر اسٹیٹ بینک کو کم از کم دو سال کی مدت کیلئے ان اداروں کی ملازمت کا اہل نہ ہونا چاہیئے کہ جن سے گورنر کی حیثیت سے انہوں نے کسی قسم کا بھی کوئی رابطہ رکھا ہو۔
دیگر یہ کہ اسٹیٹ بینک کے گورنر کا بینک کے بورڈ کا چیئرمین بھی ہونا مفادات کے ٹکراؤ کے زمرے میں آتا ہے۔ یاد رہے کہ گورنر کی تنخواہ اور ملازمت کی شرائط و ضوابط بھی بینک کا بورڈ ہی متعین کرتا ہے۔
جبکہ اصولاً یہ حکومت کا استحقاق ہونا چاہیے۔ پاکستان میں دیگر بینکوں میں اس طرح کی چیئرمین شپ پر قانونی قدغن لگتی ہے۔ اس کے علاوہ اسٹیٹ بینک کے تین بڑے ذیلی ادارے ہیں، جن کا اول تو بہت ہی قلیل کورم (اشخاص کی مقررہ تعداد) رکھا گیا ہے۔
اور دوسری طرف کورم کے ضمن میں گورنر کا شامل ہونا لازمی بتایا گیا ہے، جو دونوں شقیں کارپوریٹ اصولوں سے متصادم ہیں۔ حالانکہ قانونی مسودے میں بینک کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ سال میں ایک سے زیادہ مرتبہ پارلیمنٹ میں اپنی رپورٹیں پیش کرے۔
مگر یہ کہیں نہیں لکھا کہ بینک پارلیمنٹ کو جوابدہ ہوگا۔ دیگر عوامل میں ایک یہ شق بھی شامل ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ اسٹیٹ بینک کے فرائض سے متعلق اگر کوئی قانونی ترمیم لانا ہو تو اولاً بینک کی مشاورت وفاقی حکومت کیلئے ضروری ہوگی۔
مزید پڑھیں: پاکستان کاایٹمی جنگ کی روک تھام کیلئے سلامتی کونسل کے مستقل ارکان کے بیان کا خیرمقدم