ایم کیو ایم کے مقاصد کیا ہیں، کراچی یا پھر ذاتی مفادات ؟

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

ایم کیو ایم کو منانے کی کوششیں جاری: آج پی ٹی آئی رہنما بہادر آباد کا دورہ کریں گے
ایم کیو ایم کو منانے کی کوششیں جاری: آج پی ٹی آئی رہنما بہادر آباد کا دورہ کریں گے

گزشتہ روزوفاقی وزیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی خالد مقبول صدیقی کے استعفے کے بعد ملک بھر میں ایک نئی بحث کا آغاز ہوا۔ کچھ لوگوں  نے متحدہ قومی موومنٹ کے کنوینر خالد مقبول صدیقی کے استعفے کو ایم کیو ایم کی وفاقی کابینہ سے علیحدگی کا باضابطہ اعلان سمجھا جبکہ کچھ لوگوں نے اس کا مطلب الگ سمجھا۔

ایم کیو ایم کی علیحدگی، حکومت کو لاحق خطرات:

دوسری جانب وزیر انفارمیشن ٹیکنالوجی و کنوینر متحدہ قومی موومنٹ (پاکستان) خالد مقبول صدیقی کی حکومتی اتحاد سے علیحدگی سے تحریکِ انصاف کی وفاقی حکومت کو بھی خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔

قومی اسمبلی میں ایم کیو ایم کی 7نشستیں ہیں، جس کی شمولیت سے حکومت کی نشستیں 183 تک جا پہنچتی ہیں جو بعد میں 176 رہ جائیں گی۔ اس لیے خالد مقبول صدیقی کے استعفے کے اعلان کو بہت اہمیت دی جارہی ہے۔

اگر ایم کیو ایم حکومت سے علیحدہ ہو کر اپوزیشن کا ساتھ دیتی ہے تو ان کے پاس 158 نشستیں موجود ہیں جو بڑھ کر 165 ہوجائیں گی، جس سے حکومت کو ایک بڑا دھچکا لگے گا۔ 176 اور 165 کا فرق مزید کم بھی ہوسکتا ہے۔

پی ٹی آئی کو اپنی حکومت بچانے کے لیے 172 اراکینِ اسمبلی کی سادہ اکثریت درکار ہے، جس سے ایم کیو ایم کی علیحدگی کے بعد تحریکِ انصاف کی سادہ اکثریت صرف 5 ارکان کی مزید علیحدگی سے ختم ہوسکتی ہے۔ 

متحدہ قومی موومنٹ اور اس کی شاخیں:

متحدہ قومی موومنٹ جو 80 ء کی دہائی کے اواخر میں اے پی ایم ایس او (آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن) کے بطن سے ایک مہاجر سیاسی جماعت بن کر ابھری، آج مسلم لیگ کی طرح اس کے بھی دھڑے بن چکے ہیں۔

ایم کیو ایم کے دو دھڑے آغاز کے دور سے ہی قائم ہوئے جن میں سے ایک کی قیادت آفاق احمد نے سنبھالی جن کے تحت سیاسی جماعت کو ایم کیو ایم (حقیقی) کہا جاتا ہے جبکہ دوسری سیاسی جماعت متحدہ قومی موومنٹ (پاکستان) کہلائی۔

دوسری سیاسی جماعت ایم کیو ایم (پاکستان) کی آگے چل کر 3 نئی شاخیں برآمد ہوئیں جن میں سے ایک کے کنوینر خالد مقبول صدیقی ہیں جبکہ دوسری کی قیادت مصطفیٰ کمال نے پی ایس پی (پاک سرزمین پارٹی) کے نام سے سنبھالی۔

تقسیم در تقسیم کے عمل کے بعد ایم کیو ایم (پاکستان) کی تیسری شاخ ایم کیو ایم لندن کہلاتی ہے جن کی  تعلق رکھنے والے جرائم پیشہ افراد کو یکے بعد دیگرے گرفتاریاں عمل میں لائی گئیں۔ 

کراچی کے نام پر سیاست

سن 2002ء سے 2007ء کے دوران متحدہ قومی موومنٹ کو ایک نئی زندگی ملی۔ ایم کیو ایم رہنماؤں نے کراچی میں ترقیاتی کام بھی کروائے، تاہم زور زبردستی، بھتہ خوری اور پرتشدد واقعات کا الزام ہمیشہ متحدہ پر عائد ہوتا رہا۔

متحدہ پر ایک اور الزام بھی عائد کیا گیا اور وہ یہ تھا کہ انہوں نے ہمیشہ شہر کراچی کی بہتری اور ترقی کی بات کی، لیکن اس پر کبھی سنجیدگی سے کام نہیں کیا۔

الزام  کے تحت ایم کیو ایم ہر دور میں کراچی سے مینڈیٹ لے کر قومی و صوبائی اسمبلیوں میں تو جا پہنچتی ہے اور حکومت کو کراچی کے نام پر بلیک میل بھی کیاجاتا ہے، تاہم شہریوں کی حالتِ زار جوں کی توں ہے جس کا مداوا نہ کیاجاسکا۔

سابق وزیر اعظم نواز شریف نے 1992ء  اور 1998ء میں ایم کیو ایم کے خلاف فوجی آپریشن کیا تاہم ان کے بعد پرویز مشرف کے دور میں متحدہ قومی دھارے کی سیاسی جماعت بن کر ابھری۔

سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں ایم کیو ایم کو کراچی میں ترقیاتی کام کرنے کا موقع دیا گیا، تاہم جمہوری حکومت کے آتے ہی انہیں دوبارہ سائیڈ لائن کردیا گیا۔

مڈل کلاس طبقے کو قومی اسمبلیوں میں لے کر جانے کا کریڈٹ لینے والی ایم کیو ایم نے کراچی کے مسائل کو اجاگر تو بہت کیا، تاہم ان مسائل پر ایم کیو ایم رہنماؤں کی طرف سے زیادہ کام نہ ہوسکا۔

شہرِ قائد کی ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، بوسیدہ عمارتیں اور جا بجا بکھرے ہوئے کچرے کے ڈھیر آج بھی اس بات کے گواہ ہیں کہ متحدہ قومی موومنٹ رہنماؤں نے کراچی کی نمائندگی کا حق پوری طرح ادا نہیں کیا۔

کابینہ سے علیحدگی یا کچھ اور؟

سوال یہ ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ کے اہم رہنما نے استعفیٰ پیش کرکے کابینہ سے علیحدگی کی خوفناک تصویر کھول کر تحریکِ انصاف کی حکومت کے سامنے رکھ دی ہے۔ کیا متحدہ واقعی حکومت سے الگ ہوجائے گی؟

اس کا سرسری جواب تو یہ ہوسکتا ہے کہ متحدہ علیحدہ ہوسکتی ہے کیونکہ دوسری جانب پیپلز پارٹی اور دیگر سیاسی جماعتیں انہیں اپنی طرف کھینچ رہی ہیں، تاہم متحدہ قومی موومنٹ کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ وہ ایسا نہیں کریں گے۔

اس سے قبل متحدہ قومی موومنٹ کے رہنماؤں نے کراچی کے مسائل کو بنیاد بناتے ہوئے حکومتوں سے علیحدگی کی دھمکی تو ضرور دی لیکن کبھی اس پر سنجیدگی سے عمل نہیں کیا۔

اقتدار سے علیحدگی کی دھمکیوں کا مطلب اقتدار سے حقیقی علیحدگی کی بجائے زیادہ تر بلیک میلنگ لیا گیا کیونکہ متحدہ رہنماؤں نے مطالبات پورے ہونے پر خود ہی حکومت سے دوبارہ الحاق کر لیا، ایسا ایک بار سے زائد مرتبہ ہوا۔ 

محسوس ایسا ہوتا ہے کہ تاریخ متحدہ کی دھمکیوں کو سنجیدہ لینے پر آمادہ نہیں۔ دوسری جانب وزیر اعظم عمران خان، گورنر سندھ عمران اسماعیل اور وزیر منصوبہ بندی اسد عمر سمیت تحریکِ انصاف رہنما بھی میدان میں آچکے ہیں۔

ہمیں امید ہے کہ تحریکِ انصاف کی حکومت ایم کیو ایم رہنماؤں کو منانے، بلکہ ان کے مطالبات مان کر انہیں دوبارہ ”قومی دھارے“ میں لانے میں کامیاب ہوجائے گی جبکہ قومی مفادات کے پیش نظر بھی یہ امید ضروری دکھائی دیتی ہے۔ 

Related Posts