سائنسدانوں نے ڈائنوسارز کے سب سے طویل القامت ہونے کے صدیوں سے پوشیدہ راز کو دریافت کر لیا ہے جس سے آج بھی دلچسپ سمجھے جانے والے ان بھاری بھرکم جانوروں کے ارتقا کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔
تفصیلات کے مطابق آج سے کروڑوں برس روئے زمین پر پائے جانے والے ڈائنوسارزز کا حجم اور قد چند میٹر سے لے کر ایک عام بس کی لمبائی سے دو گنا تک زیادہ ہوا کرتا تھا۔ ایک خاص قسم کے ڈائنوسار کے جسم میں ہوا کی تھیلیاں موجود تھیں۔
ٹک ٹاک نے امریکا میں آن لائن شاپنگ کا آغاز کردیا
محققین کا کہنا ہے کہ ہوا کی یہ تھیلیاں قدیم زمانے میں پائے جانے والے ڈائنوسارز کے اجسام میں نظامِ تنفس کا حصہ تھیں اور زیادہ تر ان کے پیٹ اور قریبی حصوں میں موجود ہوا کرتی تھیں جن سے وہ اہم جسمانی کام لیا کرتے تھے۔
ہوا کی ان تھیلیوں کا کام زیادہ آکسیجن حاصل کرنا، جسمانی درجۂ حرارت کو منظم کرنا اور سخت ماحولیاتی حالات کو برداشت کرنے کے قابل ہونا تھا۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ہوا کی ان تھیلیوں نے ٹائرنوسورس ریکس اور بریچیو سورس کو طویل القامت بنایا۔
ڈائنوسارز کے متعلق تحقیقی تفصیلات اناٹومیکل ریکارڈ نامی جریدے میں شائع ہوئیں جس پر 2 محققین نے بیش بہا کام کیا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ ہوا کی تھیلیوں کی موجودگی سے ڈائنوسارز کی ہڈیوں میں کثافت یعنی مادّے کی مقدار کم ہوا کرتی تھی۔
ہڈیوں میں کثافت کی کمی کے باعث ڈائنوسارز کو بڑے سائز میں بڑھنے اور پھلنے پھولنے کے زیادہ مواقع میسر آئے۔ محققین کا کہنا ہے کہ کچھ ڈائنوسارز کی لمبائی 30 میٹر سے بھی زیادہ ہوا کرتی تھی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ موجودہ دریافت سے ڈائنوسارز کی جسمانی موافقت کا پتہ چلتا ہے اور بڑے پیمانے پر ڈائنوسارز اور ان کے زمانے کی دیگر مخلوقات کے ارتقا پر سیر حاصل معلومات حاصل ہوتی ہیں۔