پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز کے شوہر کیپٹن (ر) صفدر کی گرفتاری سے شروع ہونے والی کہانی گزشتہ روز آرمی چیف کے حکم پر کورٹ آف انکوائری رپورٹ کے منظرِ عام پر آنے سے ایک نئے موڑ پر آکھڑی ہوئی۔
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے حکم پر پاک فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) نے جو رپورٹ گزشتہ روز جاری کی، وہ کیا تھی؟ اور آئی جی سندھ کو اغواء کیا گیا یا نہیں؟ اور اگر کیا گیا تو اِس عمل کا ذمہ دار کون تھا؟ آئیے ان تمام سوالات پر غور کرتے ہیں، ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ یہ کہانی مزارِ قائد سے شروع ہوئی تھی۔
مزارِ قائد پر نعرے بازی اور آئی جی سندھ کا اغواء
ہر پاکستانی یہ بات اچھی طرح جانتا ہے کہ مادرِ ملت سے کیا مراد ہے؟ قائدِ اعظم محمد علی جناح کو ہم بابائے قوم کہتے ہیں اور ان کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح مادرِ ملت کہلاتی ہیں لیکن مسلم لیگ (ن) نے ایک نیا رجحان تشکیل دینے کی ناکام کوشش کی۔/
ن لیگی رہنما کیپٹن (ر) صفدر نے مادرِ ملت زندہ باد کے نعرے لگوائے اور جب ایسا کیا جارہا تھا تو مریم نواز کی تصویر پر مادرِ ملت کا لقب تحریر کیا ہوا پایا گیا جو نہ صرف مادرِملت کے خطاب کی توہین ہے بلکہ مزارِ قائد پر نعرے بازی آئینِ پاکستان کے تحت ایک سنگین جرم ہے جس کی سزا قید کے ساتھ ساتھ جرمانہ بھی ہے، جس پر قبل ازیں کافی گفت و شنید ہوچکی ہے۔
پھر مزارِ قائد ایکٹ کے تحت کیپٹن صفدر کو گرفتار کیا گیا لیکن اہم نکتہ یہ ہے کہ یہ گرفتاری سندھ حکومت یا آئی جی سندھ کے احکامات کے تحت عمل میں نہیں لائی گئی اوریہیں سے یہ معاملہ شروع ہوا جسے آئی جی سندھ کے اغواء سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
تحقیقاتی رپورٹ کا خلاصہ
چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے آئی جی سندھ کے اغواء کے معاملے پر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے تحقیقات کا مطالبہ کیا جس پر رپورٹ گزشتہ روز آئی ایس پی آر اعلامیے کے تحت منظرِ عام پر لائی گئی۔
اعلامیے میں کہا گیا کہ آرمی چیف کے احکامات پر رینجرز اور آئی ایس آئی سے تعلق رکھنے والے 4 سینئر اہلکاروں کو ضابطۂ اخلاق کی خلاف ورزی پر عہدوں سے برطرف کردیا گیا ہے جن کی وجہ سے ریاست کے 2 اہم اداروں میں اختلافات پیدا ہوئے۔
رپورٹ جاری کرتے ہوئے انٹر سروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) نے بتایا کہ چاروں افسران کے خلاف پاک فوج کے جنرل ہیڈ کوارٹرز (جی ایچ کیو) میں کارروائی کی جائے گی۔ آرمی چیف نے جو کہا تھا، سچ کر دکھایا۔
انٹر سروسز پبلک ریلیشنز نے کہا کہ مذکورہ افسران کا تعلق پاکستان رینجرز اور سیکٹر ہیڈ کوارٹر آئی ایس آئی کراچی سے ہے جن پر عوام کا شدید دباؤ تھا کہ مزارِ قائد کی بے حرمتی پر قانون کے مطابق بروقت کارروائی کی جائے۔
آئی ایس پی آر کے مطابق مذکورہ آفیسرز نے سندھ پولیس کے طرزِ عمل کو سست روی کا شکار اور سست پایا اور اپنی حیثیت میں کسی حد تک جذباتی ردِ عمل ظاہر کیا جبکہ وہ ذمے دار اور تجربہ کار آفیسرز تھے جو ہر قسم کی ناپسندیدہ صورتحال سے گریز کرسکتے تھے۔
بلاول کا خیر مقدم اور ن لیگ کا ردِ عمل
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے آرمی چیف کے حکم پر تشکیل دی گئی رپورٹ کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ اس سے قومی ادارے مضبوط ہوں گے اور امید کرتے ہیں کہ بہتری اور بحالی کا عمل جاری رہے گا۔
دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کے تاحیات قائد اور سابق وزیرِ اعظم میاں نواز شریف نے رپورٹ مسترد کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ واقعے کی انکوائری اصل حقائق پر پردہ ڈالنے کی کوشش ہے جبکہ خود کو چانے کیلئے جونیئر افسران کو قربان کیا گیا، یہ روش قابلِ مذمت ہے۔
دوسری جانب ن لیگی رہنما خواجہ آصف نے رپورٹ پر ملے جلے ردِ عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ن لیگی رہنما کیپٹن (ر) صفدر کو گرفتار کرنے کیلئے چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کیا گیا۔ رپورٹ خوش آئند ضرور ہے لیکن نواز شریف کا ردِ عمل ان کا ذاتی فیصلہ ہے اور ہم اس کے خلاف نہیں جاسکتے۔
رپورٹ مشتہر کرنے کا مطالبہ
یقینی طور پر آئی ایس پی آر نے جس رپورٹ کی بات کی، گزشتہ روز اس رپورٹ کے مندرجات ہو بہو بیان نہیں کیے گئے بلکہ تفصیلی رپورٹ کو منظرِ عام پر لانے یا نہ لانے کا فیصلہ بھی ابھی باقی ہے۔
ن لیگ کے سینئر رہنما اور سابق وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی نے آج بیان دیا کہ رپورٹ کے مندرجات کو پبلک کیا جائے تاکہ عوام کو بھی حقائق کا علم ہوسکے کہ آئی جی سندھ کو کس نے اغوا کیا تھا؟
افسران کا جرم کیا تھا؟
تجزیہ کار آرمی کی طرف سے پیش کردہ اِس کورٹ آف انکوائری رپورٹ پر 2 حصوں میں منقسم نظر آتے ہیں۔ ایک طبقۂ فکر کا کہنا ہے کہ رینجرز اور آئی ایس آئی کے مذکورہ آفیسرز جن کے خلاف ضابطے کی کارروائی کی جارہی ہے، ان کا جرم ثابت ہوچکا ہے۔
جرم ثابت ہونے سے مراد یہ لیا جارہا ہےکہ آئی جی سندھ واقعی اغواء ہوئے تھے اور انہیں مرضی کے خلاف احکامات دینے پر مجبور کیا گیا، تاہم دوسرا طبقۂ فکر جس میں ارشد شریف پیش پیش نظر آتے ہیں، ان کا فرمانا اس کے برعکس ہے۔
معروف تجزیہ کار ارشد شریف نے اپنے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ کورٹ آف انکوائری رپورٹ سے آئی جی سندھ کا اغواء ثابت نہیں ہوتا۔ افسران نے آئی جی سندھ کو بلایا جس پر ان کے خلاف ضابطے کی کارروائی کی جائے گی۔
اگر ہم آئی ایس پی آر کا بیانیہ اپنے سامنے رکھیں تو وہ کہتا ہےکہ افسران عوامی دباؤ کے زیرِ اثر اداروں میں اختلافات پیدا کرنے کا باعث بنے، لیکن وہ ادارے کون سے تھے؟ افسران کے نام کیا ہیں؟ اختلافات پیدا کرنے کا باعث کون سا عمل تھا؟ یہ سب باتیں بیان نہیں کی گئیں، لہٰذا افسران کا جرم کیا تھا؟ یہ ایک غیر واضح سی بات لگتی ہے۔
شکوک در شکوک
رپورٹ پر سوالات اپنی جگہ، لیکن پیپلز پارٹی اور ن لیگ سمیت دیگر سیاسی رہنماؤں نے رپورٹ پر جو نپے تلے اور مبہم تبصرے کیے ہیں، ان سے بھی شکوک پر شکوک بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔
مثال کے طور پر نواز شریف نے کہا کہ انکوائری رپورٹ اصل حقائق کو چھپانے کی کوشش ہے، لیکن انہوں نے اصل حقائق بیان کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ انہوں نے یہ تو فرمایا کہ کسی کو بچانے کیلئے کسی اور کو قربان کیا گیا، لیکن کس کو بچایا گیا اور کسے قربان کیا گیا، اس بات کا جواب بھی نہیں دیا۔
کورٹ آف انکوائری رپورٹ کی وضاحت ضروری
حقیقت یہ ہے کہ جب تک رپورٹ کے حقیقی مندرجات عوام کے سامنے نہ لائے جائیں، شکوک در شکوک کا یہ سلسلہ جاری رہے گا، اس ابہام کو صرف 2 صورتوں میں کم یا ختم کیا جاسکتا ہے۔
اول یہ کہ آئی ایس پی آر شاہد خاقان عباسی کے مطالبے کے پیشِ نظر رپورٹ کو پبلک کرے اور دوم یہ کہ میڈیا نمائندگان کو ایک نیوز کانفرنس میں بلایا جائے اور کورٹ آف انکوائری رپورٹ پر مختلف سوالات کے جوابات دئیے جائیں۔ عوامی خدشات کو ختم کرنے کیلئے یہ وضاحت ضروری محسوس ہوتی ہے۔