کورونا وائرس دنیا بھر میں تیزی سے پھیلتا جارہا ہے اور شاید ہی دنیا کا کوئی ملک اب اِس سے محفوظ رہا ہو۔ حکومتِ پاکستان نے کورونا وائرس کے خلاف کرفیو کے نفاذ کو غریبوں پر ظلم قرار دیتے ہوئے لاک ڈاؤن کا اقدام اٹھایا اور وزیرِ اعظم عمران خان نے غریب عوام کے لیے ریلیف پیکیج کا اعلان کیا۔
وزیرِ اعظم عمران خان اور حکومت کا یہ ریلیف پیکیج کیا ہے؟ جو اقدامات انہوں نے اٹھائے ہیں کیا کورونا وائرس جیسی وباء کے خلاف یہ درست ہیں اور اگر درست ہیں تو کس حد تک؟ اور کیا یہ اقدامات کافی ثابت ہوں گے یا حکومت کو مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔ آج ہم ان تمام سوالات کے جوابات تلاش کریں گے۔
وزیرِ اعظم عمران خان کا ریلیف پیکیج
گزشتہ روز وزیرِ اعظم نے ملک میں لاک ڈاؤن کی صورتحال کو مدِ نظر رکھتے ہوئے عوام کے لیے1200 ارب کے ریلیف پیکیج کا اعلان کیا جس کے تحت آئندہ 4 ماہ تک غریب خاندانوں کو ماہانہ 3000 روپے وظیفہ دیا جائے گا۔
ریلیف پیکیج کے تحت میڈیکل ورکرز کے لیے 50 ارب، برآمدات کے لیے 100 ارب، درمیانے درجے کی صنعتوں کے لیے 100 ارب جبکہ غریب مزدوروں کے لیے 200 ارب روپے مختص کیے گئے۔
حکومت نے گندم کی خریداری کے لیے 280 ارب اور یوٹیلٹی اسٹورز کے لیے 50 ارب روپے مختص کیے۔ اس کے علاوہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 15 روپے فی لٹر تک کمی کی گئی اور بجلی و گیس کے بلز 3 اقساط میں ادا کرنے کی سہولت کا اعلان کیا گیا۔
صوبائی حکومتوں کے ریلیف پیکیجز
حکومتِ سندھ نے 3 ارب روپے کا کورونا ریلیف فنڈ قائم کیا ہے جس کے تحت عوام کو ضروریاتِ زندگی کی اشیاء اور راشن تقسیم کیا جائے گا جبکہ وزیرِ اعلیٰ سندھ نے ایدھی فاؤنڈیشن، چھیپا اور شہزاد رائے کے زندگی ویلفیئر سمیت دیگر سماجی بہبود کے اداروں اور مخیر حضرات سے اپیل کی ہے کہ کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں حکومت کا ساتھ دیں۔
صوبائی حکومت کے مطابق سندھ کے وزراء، اراکینِ اسمبلی اور اعلیٰ عہدیداران ریلیف فنڈ میں اپنی ایک ایک ماہ کی تنخواہ جمع کرائیں گے تاکہ غریب عوام کے مسائل کا تدارک ممکن بنایا جاسکے۔ سندھ حکومت نے 60 ہزار راشن بیگز خرید کر تقسیم کرنے کا فیصلہ بھی کیا ہے۔
دوسری جانب پنجاب حکومت نے وزیرِ اعلیٰ سمیت کابینہ اراکین کی 1 ماہ کی تنخواہ کورونا بچاؤ فنڈ میں دینے کا اعلان کیا۔ زکوٰۃ کی کٹوتی جلد کرنے کا اعلان بھی کیا گیا اور تمام اضلاع میں بیت المال فنڈز ریلیز کرنے کا اعلان بھی ہوا۔
صوبہ بلوچستان میں بھی کورونا وائرس کے دوران لاک ڈاؤن سے متاثر ہونے والے افراد کی مالی معاونت کا اعلان کیا گیا، تاہم یہ مالی معاونت کتنی ہوگی اور کب ملے گی، اس حوالے سے اعلانات ابھی باقی ہیں۔
اگرہم خیبر پختونخواہ کی بات کریں تو صوبائی حکومت نے کورونا سے متاثرہ افراد کیلئے راشن دینے کا اعلان کیا۔ راشن انہیں دیا جائے گا جو سرکاری قرنطینہ میں ہیں، یہ 20 کلو آٹا، 10 کلو چاول، 10 کلو چینی، 5 کلو دال اور دودھ وغیرہ پر مشتمل ہوگا۔
مزید مدد کی ضرورت
سندھ میں سن 2017ء کے اعدادوشمار کے مطابق 4 کروڑ 78 لاکھ سے زائد نفوس بستے ہیں۔ 3 ارب روپے کا ریلیف فنڈ اگر ان میں سے نصف آبادی کو بھی دیا جائے تو یہ تقریباً 150 روپے فی کس بنتا ہے جو کتنا ناکافی ہے، آپ خود اندازہ کرسکتے ہیں جبکہ 60 ہزار راشن بیگز کی تقسیم کا اقدام بہرحال خوش آئند ہے جس میں مزید اضافے کی ضرورت ہے۔
دیگر صوبائی حکومتوں کے اقدامات صوبہ سندھ کے مقابلے میں معمولی نظر آتے ہیں۔ اس لیے ہماری رائے میں دیگر صوبائی حکومتوں کو بھی لاک ڈاؤن کے دوران غریب عوام کی امداد کیلئے مخیر حضرات کے تعاون کے ساتھ ساتھ خود بھی آگے آنا ہوگا۔
وفاقی حکومت کی آئندہ 4 ماہ تک غریب خاندانوں کو ماہانہ 3000 روپے ماہانہ وظیفے کی بات بھی غریب عوام انتہائی ناکافی ہے۔ وہ لوگ جو پہلے ہی انتہائی غربت کی زندگی گزار رہے ہیں اور انہیں ماہانہ 3000 کی امداد اپنی ماہانہ اجرت کے ساتھ ساتھ اہم دکھائی دیتی تھی، آج کام کاج چھوڑ دینے کے بعد اسے حیرت کی نظر سے دیکھ رہے ہیں کیونکہ 3000 روپے ماہانہ کا مطلب 100 روپے یومیہ ہے۔
غور کیا جائے تو جس خاندان کے پاس کمانے کے لیے جو انتہائی نامناسب ذریعہ معاش موجود تھا جس سے انہیں پیش آنے والی معاشی مشکلات اس ریلیف پیکیج سے حل ہوجایا کرتی تھیں، آج وہ صفر پر آگیا ہے۔ 100 روپے یومیہ کا پیکیج غریب عوام کے لیے یقیناً کم ہے، ہماری تجویز یہ ہے کہ وزیرِ اعظم عمران خان کو اس پر نظر ثانی کرنی چاہئے۔ عوام کو مزید مدد کی ضرورت ہے۔
انتہائی غریب اور روز کے روز کمانے والے طبقے کا تو کوئی پرسانِ حال ہی نہیں، ان کی تو بات ہی چھوڑئیے، نجی اداروں میں کام کرنے والے متوسط طبقے کے بارے میں سوچئے۔ کرایوں پر رہنے والے کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جو اپنے گھروں کے کرائے بھی ادا کرنے کے قابل نہیں رہے۔ نجی تعلیمی اداروں نے اساتذہ کو تنخواہیں دینے سے انکار کردیا ہے۔ اسکولوں سمیت ایسے کتنے ہی ادارے ہیں جو یہی روش اپنا رہے ہیں۔ تنخواہ دار طبقہ تباہ حال ہے۔ ماہانہ وظیفے میں کئی گنا اضافے کی ضرورت ہے۔
پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 15 روپے کی کمی پر تجویز
پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں حکومت نے محض 15 روپے فی لٹر کمی کی ہے جبکہ عالمی منڈیوں میں تیل کی گرتی ہوئی قیمتیں یہ گواہی دے رہی ہیں کہ موجودہ لاک ڈاؤن کے تناظر میں تیل کی قیمت میں کم از کم 50 فیصد کمی ہونی چاہئے۔
سادہ الفاظ میں آج جو پٹرول ہمیں 100 روپے فی لٹر کے قریب پڑتا ہے، اس کی قیمت کم از کم 50 سے 60 روپے فی لٹر بلکہ اس سے بھی کم ہونی چاہئے، جیسا کہ اپوزیشن رہنما پہلے ہی حکومت کو اس حوالے سے مختلف مشورے دے چکے ہیں۔
شرحِ سود کا مسئلہ
اگر شرحِ سود کی بات کی جائے تو گزشتہ روز اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے شرحِ سود میں 1.5 فیصد کمی کرتے ہوئے 11 فیصد کردیاجو یقیناً ایک قابلِ تعریف اقدام ہے لیکن ہمارا سوال یہ ہے کہ کورونا وائرس کے خلاف دیگر ممالک کے اقدامات ہمارے سامنے ہیں۔ شرحِ سود مکمل طور پر معاف کرنا دیگر ممالک کی طرح اسلامی جمہوریہ پاکستان کے لیے بھی ضروری ہے۔ اس پر غور ضرور کیجئے گا۔
کیا یہ اقدامات کافی ہیں؟
بے شک کورونا وائرس جیسی عالمی وباء کے خلاف جو اب تک پاکستان میں تقریباً 1000 افراد کو متاثر کرچکی ہے یہ اقدامات کافی نہیں۔ہم امید کرتے ہیں کہ وفاق اور صوبائی حکومتوں کو اِس بات کا ضرور احساس ہوگا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ غریب عوام کے ریلیف کے لیے ماہانہ راشن، اشیائے ضروریہ اور سستی ادویات سمیت دیگر اہم اقدامات کو یقینی بنائیں گے۔