ہم اہل قدس کے دکھ درد کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ یہ نوجوانی اور بسا اوقات بچپن میں گرفتار ہو جاتے ہیں اور پھر رہائی یا تو بڑھاپے میں مل جاتی ہے اور یا پھر جیل سے ہی میت اٹھتی ہے اور ہاں! یہاں میت کا مل جانا بھی کسی نعمت سے کم نہیں۔ صہیونی ریاست لاشوں کا سودا کرتی ہے۔ لواحقین کو میت کے لیے خون کے آنسو رلاتی ہے۔ یہ ایک الگ داستان الم ہے۔ جس پر کسی اور نشست میں روشنی ڈالیں گے۔
آج بات کرتے ہیں حالیہ معاہدے کے تحت رہائی پانے والے دنیا کے سب سے قدیم قیدی کی۔ معاہدے کے اگلے مرحلے میں ایک ایسا فلسطینی قیدی بھی رہائی پا رہا ہے، جسے اسرائیلی زندانوں میں سب سے زیادہ قید کاٹنے کا اعزاز حاصل ہے۔ یہ ہیں نائل البرغوثی۔ جو 1957ء میں پیدا ہوئے۔ عمر 67 سال ہے، ان 67 برسوں میں سے 44 سال وہ صہیونی زندانوں میں گزار چکے ہیں۔ 18 دسمبر 1977ء کو گرفتار کرکے انہیں عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ نے 2009ء میں ہی انہیں دنیا کا سب سے قدیم قیدی قرار دے کر ان کا نام درج کیا تھا۔ البرغوثی کو فلسطینی قیدیوں کا “عمید” (سینئر) کہا جاتا ہے۔ پہلے تعلق فلسطینی قومی تحریک (فتح) سے تھا اور اب اسلامی مزاحمتی تحریک (حماس) سے ہے۔ فلسطینی قیدی انہیں “ابو النور” کے لقب سے پکارتے ہیں۔ آیئے فلسطینی تحریک حریت کے اس عظیم کردار پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہیں۔
ولادت اور آغاز زندگی:
نائل صالح عبد اللہ البرغوثی 23 اکتوبر 1957ء کو فلسطین کے شہر رام اللہ اور بیرزیت کے قریب واقع کفر قرعہ کے گاؤں میں پیدا ہوئے، جہاں انہوں نے اپنی زندگی کے ابتدائی مراحل گزارے۔
تعلیمی پس منظر:
نائل البرغوثی نے ابتدائی تعلیم گاؤں کفر قرعہ میں حاصل کی اور پھر اپنی تدریسی سفر کو بیرزیت میں “مدرسہ الأمير حسن” میں جاری رکھا، جہاں انہوں نے اپنی متوسطہ اور ثانوی تعلیم مکمل کی۔ جب وہ ثانوی امتحانات کی تیاری کر رہے تھے، انہیں اپریل 1978ء میں اپنے بھائی عمر اور کزن فخری البرغوثی کے ساتھ اسرائیلی فوج نے گرفتار کر لیا۔ ان پر شمالی رام اللہ میں ایک اسرائیلی افسر کے قتل، ایک تیل کے کارخانے کو نذر آتش کرنے اور القدس میں ایک کیفے کو بم سے اڑانے کا الزام تھا۔ انہیں اور ان کے ساتھ گرفتار ہونے والوں کو عمر بھر کی قید کی سزا سنائی گئی۔ البرغوثی کو ایک جستجو کرنے والا انسان سمجھا جاتا ہے اور اس نے قیدیوں میں اپنی وسیع ثقافت اور تاریخ سے محبت کی وجہ سے شہرت حاصل کی۔ انہیں فلسطینی جدوجہد کے سنگ میلوں پر ایک حوالہ کے طور پر جانا جاتا ہے۔ انہوں نے جیل میں عبرانی اور انگریزی زبانیں سیکھیں اور 18 اکتوبر 2011 کو “وفاء الأحرار” قیدیوں کے تبادلے کی معاہدے کے تحت رہائی کے بعد القدس یونیورسٹی سے تاریخ میں تعلیم حاصل کرنا شروع کی، لیکن جلد ہی دوبارہ گرفتار ہونے کی وجہ سے وہ اپنے تعلیمی سفر کو جاری نہ رکھ سکے۔
جدوجہد اور مزاحمت:
نائل البرغوثی بچپن ہی سے اپنی استقامت کی وجہ سے معروف تھے اور 1967ء میں اسرائیلی افواج کے مغربی کنارے پر حملے کے دوران انہوں نے اور اس کے بھائی عمر اور کزن فخری البرغوثی نے اپنے گھر کی چھت پر چڑھ کر پتھروں کا ایک ڈھیر جمع کیا اور نعرے لگانے شروع کر دیئے۔ وہ اپنے بھائی عمر کے ساتھ مزاحمتی گروہ میں شامل ہوئے، جب وہ ابھی نوعمر لڑکے ہی تھے اور 18 دسمبر 1977ء کو پہلی بار گرفتار ہوئے۔ انہیں تین ماہ کی قید کی سزا دی گئی اور رہا ہونے کے صرف 14 دن بعد انہیں دوبارہ گرفتار کر لیا گیا، اس بار ان پر اسرائیلی قبضے کے خلاف مزاحمت کا الزام تھا اور انہیں اور فخری البرغوثی کو عمر بھر کی قید کے ساتھ 18 سال اضافی قید کی سزا دی گئی۔ نائل البرغوثی نے پہلے فلسطینی عوامی محاذ کے ساتھ ملنے کی کوشش کی تھی، لیکن بعد میں انہوں نے فتح تحریک کو اپنایا اور آزادی کی جدوجہد کے لیے مزاحمت کو ایک راستہ سمجھا۔ 1983ء میں فلسطینی انقلاب کے بیروت سے نکلنے اور داخلی مسائل کے باعث فتح تحریک میں شگاف پڑا، جس کے نتیجے میں نائل اور ان کے بھائی عمر نے فتح الانتفاضہ میں شمولیت اختیار کی۔ ان کی فیملی نے بھی گرفتاریوں اور اسرائیلی فوج کی جانب سے تعاقب کا سامنا کیا۔ 1985ء میں ان کے والد اور بھائی عمر کو عوامی محاذ قیادت عامہ کے ساتھ ایک قیدیوں کے تبادلے میں رہا کیا گیا، لیکن اسرائیلی حکام نے نائل کا نام اس تبادلے یا 1993ء میں فلسطینی اتھارٹی کے قیام کے دوران کسی دوسرے تبادلے میں شامل کرنے سے انکار کر دیا۔ جب فلسطینی تحریک حریت میں اسلامی تحریکوں کا اُبھار اور اسرائیلی قبضے کے خلاف مزاحمت میں ان کا فعال حصہ بڑھا، تو نائل کے بھائی عمر نے حماس میں شمولیت اختیار کی اور نائل نے بھی 1995ء میں جب وہ جنید جیل نابلس میں قید تھے، اسی تحریک کو جوائن کیا۔ نائل البرغوثی کو اپنے والدین کی موت کا دکھ جیل میں جھیلنا پڑا، کیونکہ ان کے والد 2004 میں اور والدہ 2005 میں انتقال کر گئیں اور وہ والدین کا آخری دیدار یا وداع نہیں کر سکے۔
نائل البرغوثی کو 18 اکتوبر 2011 کو فلسطینی مزاحمتی قوتوں اور اسرائیل کے درمیان ہونے والے “وفاء الأحرار” معاہدے کے تحت رہا کیا گیا۔ اس معاہدے کے تحت اسرائیل نے اپنے فوجی شالیط کو رہا کیا تھا اور اس کے بدلے میں ایک ہزار سے زیادہ فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا گیا۔ رہائی کے بعد نائل البرغوثی نے 18 نومبر 2011 کو جیل سے آزاد ہونے والی قیدی ایمان نافع سے شادی کی اور اپنی زندگی کا سفر دوبارہ شروع کیا، وہ اپنے گاؤں کوبر میں زمین کی آبادکاری اور کاشت کاری کا کام میں لگ گئے۔ تاہم، وہ مکمل طور پر آزاد نہیں تھے، بلکہ ان پر رام اللہ اور اس کے اطراف میں نظر بندی تھی۔ انہیں ہر دو ماہ بعد اسرائیلی فوج کے بیت ایل مرکز میں جا کر “حاضری کی تصدیق” کرنی ہوتی تھی۔ رہائی کے 32 ماہ بعد، 18 جون 2014 کو اسرائیلی حکام نے انہیں دوبارہ گرفتار کر لیا، یہ گرفتاری “وفاء الأحرار” معاہدے میں رہائی پانے والوں کے خلاف کی جانے والی ایک بڑی گرفتاری مہم کا حصہ تھی۔ نائل البرغوثی کو 30 ماہ قید کی سزا دی گئی تھی اور جب انہوں نے اپنی سزا مکمل کی، تو اسرائیلی حکام نے انہیں رہا کرنے سے انکار کر دیا اور ان کی سابقہ سزا (عمر بھر قید اور 18 سال اضافی) کو دوبارہ بحال کر دیا، اس کی وجہ ایک خفیہ فائل کا وجود بتایا گیا۔ اسرائیلی جیل میں دوبارہ قید کے دوران، نائل البرغوثی کو 2021 میں ایک اور گہرے صدمے کا سامنا ہوا جب ان کے بھائی عمر کا کورونا وائرس (COVID-19) کی وجہ سے انتقال ہو گیا۔ انہیں اپنے بھائی کو بھی الوداع کہنے کا موقع نہیں دیا گیا، جو ان کا نہ صرف دست و بازو، بلکہ جیل میں ان کا ساتھی اور مزاحمت کی جدوجہد میں اس کا ہم سفر بھی تھا۔ نائل البرغوثی کے وکیل نے ان کی سابقہ سزا کے فیصلے (عمر بھر قید اور 18 سال) کے خلاف کئی مرتبہ اپیل اور درخواستیں دائر کیں، لیکن ان کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں آیا۔ قید کے دوران، نائل البرغوثی نے متعدد پیغامات بھیجے، جن میں انہوں نے فلسطینی قیدیوں کی رہائی اور فلسطینی شناخت کے دوبارہ مضبوط بنانے کے لیے قومی اتحاد کی اہمیت پر زور دیا۔
نائل فلسطین میں استقامت کا ایک استعارہ ہے۔ یہ بات مشہور ہے کہ یہ جیل کی جس کال کوٹھڑی میں تھے، 44 برس کے دوران اس کا آہنی دورازہ دو بار گل سڑ کر گیا اور اسے تبدیل کر دیا گیا۔ مگر نائل البرغوثی کے پایہ استقلال میں کوئی جنبش نہیں آئی۔ یہ اپنے موقف پر چٹان کی طرح ڈٹے رہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ اسرائیل نے ویسے ہی مذاکرات کرکے جنگ بندی کر لی اور اسرائیل نے حماس کو دھوکہ دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ جانبازوں نے اسے ایسی کاری ضرب لگائی ہے کہ وہ گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوا۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ جانبازوں کے ایسے ایسے رہنمائوں کو رہا کرایا، جو یقینا اس کی بڑی کامیابی ہے۔ اسرائیلی جیلوں سے ایسے قیدی بھی رہائی پا رہے ہیں، جنہیں نائل سے بھی زیادہ عرصے کی سزا سنائی جا چکی ہے۔ ان میں عبد اللہ البرغوثی سرفہرست ہیں۔ جنہیں انسانی تاریخ کی سب سے لمبی سزا کا سامنا ہے۔ صہیونی عدالتوں نے انہیں 67 بار عمر قید کے ساتھ 5200 سال قید کی اضافی سزا سنا رکھی ہے۔ اب جانباز اپنے ایسے عظیم قائد کو بھی رہا کرا رہے ہیں تو یہ ان کی بڑی کامیابی ہے۔ اب حالیہ معاہدے کے اگلے مرحلے میں انہیں رہا کیا جا رہا ہے۔
رہائی پانے والے قیدیوں میں نائل البرغوثی کا نام دیکھ کر خاندان سمیت ان کے علاقے کے لوگوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ والدین تو دنیا سے جا چکے۔ سب سے زیادہ خوشی ان کی اہلیہ ایمان نافع کو ہوئی۔ مگر اگلے روز ان کی خوشی کافور ہوگئی جب پتہ چلا کہ نائل کا نام ان افراد کی فہرست میں شامل ہے، جنہیں فلسطینی علاقوں سے باہر بھیجا جائے گا۔ یعنی انہیں ملک بدر کیا جائے گا۔ ایمان نافع کا کہنا ہے “جب میں نے اسرائیلی وزارت انصاف کی جانب سے شائع کردہ فہرست میں ان کا نام دیکھا، جس میں ان درجنوں فلسطینی قیدیوں کے نام شامل تھے، جنہیں معاہدے کے تحت میں رہائی دی جائے گی اور انہیں 7 اکتوبر 2023 کو اسرائیل سے غزہ بھیجا جائے گا، تو مجھے بہت خوشی ہوئی۔ میں نے کچھ دنوں تک اس اعلان کا انتظار کیا اور اپنے سرتاج کی آمد کے لیے گھر کو سجانے سنوارنے میں لگ گئی۔ میں نے ان کی تصویریں ہر طرف آویزاں کیں، بعض تصاویر میں وہ 18 سال کے تھے، کچھ میں وہ ساٹھ کی دہائی میں تھے اور یہ تمام تصاویر جیل میں ان کے قید کے دوران لی گئی تھیں۔ لیکن میری یہ خوشی عارضی ثابت ہوئی، شاید میرے مقدر میں دکھ ہی لکھے ہیں، اب معلوم ہوا ہے کہ میرے شوہر کو اسرائیلی فہرست کے مطابق فلسطینی علاقوں سے باہر بھیجا جائے گا۔”
ایمان نافع کا مزید کہنا ہے “یقیناً، میں بہت غمگین ہو گئی، کیونکہ میں شدت سے ان کا انتظار کر رہی تھی اور میں نے نہیں سوچا تھا کہ نائل کو ایک نئی سزا کے طور پر اپنے وطن اور اپنی سرزمین سے بے دخل کیا جائے گا۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ تاریخ کی سب سے سخت سزا ہے۔ جلاوطنی کے اس فیصلے کو مسترد کرتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ نائل بھی اسے مسترد کریں گے، ایسی آزادی کے بجائے وہ جیل میں رہنا پسند کریں گے تاکہ کم ازکم اپنی سرزمین میں تو رہیں گے۔ تصور کریں کہ ایک شخص نے 44 سال جیل میں گزارے ہوں اور پھر نئی سزا کے طور پر اسے اپنے خاندان، اپنے ملک اور اپنی رہائش گاہ سے بے دخل کیا جائے۔”
معاہدے کے پہلے مرحلے کا اختتام 42 دنوں میں ہوگا اور اس دوران 33 اسرائیلی قیدیوں کے بدلے 1900 فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا جائے گا۔ فہرست میں 230 سے زائد فلسطینیوں کے نام ہیں جنہیں عمر بھر کی قید کی سزا دی گئی ہے، جنہیں رہا کیا جائے گا لیکن انہیں مستقل طور پر ملک بدر کیا جائے گا۔ تاہم یہ ذکر نہیں کیا گیا کہ انہیں کس ملک میں بھیجا جائے گا۔ لیکن ح م ا س کے دو ذرائع (جو جنگ بندی پر مذاکرات میں شریک تھے) نے ترکی اور قطر کا ذکر کیا۔ فلسطینی اداروں کے مطابق، ان فلسطینیوں میں سے 47 افراد جو اس معاہدے کے تحت رہائی پائیں گے، وہ وہ لوگ ہیں جنہیں 2011 میں شالیط کے بدلے رہائی مل چکی تھی، مگر بعد میں دوبارہ گرفتار کر لیا گیا تھا۔
نائل کی اہلیہ ایمان نافع کو بھی گزشتہ سال 3 ماہ کے لیے گرفتار کیا گیا تھا، یہ گرفتاریاں مغربی کنارے میں غزہ پر جنگ کے دوران کی گئیں اور یہ پہلی بار نہیں تھا کہ وہ جیل میں گئی تھیں۔ اس سے قبل بھی وہ متعدد بار اسرائیلی جیلوں میں رہی ہیں۔ ان کی قید کا سب سے لمبا دورانیہ 10 کا سال تھا، جب انہیں 1987 میں فلسطینی انتفاضہ کے دوران “مقابلۂ اسرائیلی قبضہ” کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ اس وقت نائل البرغوثی نے اسرائیلی ٹی وی پر انہیں جیل میں دیکھ کر ان سے شادی کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ وہ کہتی ہیں “میں اس بارے میں کچھ نہیں جانتی تھی۔ جب مجھے 1997 میں رہا کیا گیا، نائل کے خاندان نے میری طرف شادی کے لیے پیغام بھیجا، لیکن کچھ ذاتی وجوہات کی بنا پر وہ شادی نہیں ہوئی۔ میں نے نائل کو پہلے نہیں دیکھا تھا۔ ہم 2011 میں ملے۔ جب نائل کچھ روز قبل ہی رہا ہوا تھا۔ اس کے ایک ماہ بعد ہماری شادی ہو گئی، مگر ہم صرف 32 مہینے ہی اکٹھے رہ سکے، کیونکہ پھر انہیں دوبارہ گرفتار کر لیا گیا۔ ہماری شادی کا دن ایک قومی جشن تھا، سب نے ہمارے لیے خوشی منائی، یہ ملاقات اور آزادی کی امید کا اظہار تھا۔ اسرائیل نے البرغوثی پر رام اللہ کے شمالی علاقے کوپر میں گھریلو نظربندی عائد کر دی تھی اور اس وقت وہ اپنے گھر کے باغ میں سنبل، سنہری اور زیتون کے درخت لگا رہے تھے کہ انہیں دوبارہ گرفتار کیا گیا۔ میں ان کا انتظار کر رہی ہوں تاکہ وہ ان درختوں کے پھلوں کا مزہ لے سکیں، اب وہ 68 سال کے بوڑھے ہو گئے ہیں اور گرفتاری کے وقت نوخیز نوجوان تھے۔”