اسلام آباد نیشنل پریس کلب کے باہر بلوچستان سے آئے ہوئے افراد اور ان کی فیملیز نے گزشتہ تین دن سے دھرنا دیا ہوا ہے۔ متاثرین کا کہنا ہے کہ ہم اپنے لاپتہ افراد کے حوالے سے احتجاج کر رہے ہیں ہمیں بتایا جائے کہ ہمارے لاپتہ افراد کہاں پر ہیں۔
ایم ایم نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے بلوچ موومنٹ کے چیئرمین نصراللہ نے بتایا کہ بلوچستان کے عوام دو عشروں سے اذیت ناک صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں۔ بلوچستان میں سیاست سے منسلک افراد سمیت ہر طبقہ فکر کے لوگ کی جبری گمشدگی نے عوام کو تشویش ناک صورتحال سے دوچار کر دیا ہے۔
لاپتہ افراد کے لواحقین اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے پرامن احتجاج گذشتہ کئی سالوں سے ریکارڈ کراتے آرہے ہیں۔ کراچی کوئٹہ اسلام آباد کے پریس کلب میں پریس کانفرنس کے توسط سے اپنی درد بھری آواز کو متعلقہ حکام تک پہنچایا مظاہرہ اور ریلی کے ذریعے آواز اٹھاتے رہے لیکن آج تک ک ان کے پیاروں کی بازیابی ممکن نہ ہوسکی۔
حکومت کی جانب سے حال ہی میں لاپتا افراد کو بازیاب کرانے کا جو سلسلہ شروع کیا گیا ہے وہ خوش آئند ہے کیونکہ بلوچستان سے لاپتہ ہونے والے افراد دس دس بارہ بارہ سال سے لاپتہ ہیں اور ان کے لواحقین ان کے انتظار میں اذیت بھری زندگی جی رہے ہیں۔
گمشدہ بھائی اور گمشدہ شوہر کا ایک دہائی سے لاپتہ ہونے کا درد وہی محسوس کر سکتے ہیں جنہوں نے اپنے پیارے کھو دیے ہیں۔ لاپتہ افراد کو بازیاب کرانے اور ان کی سماعت کے لیے حکومت پاکستان نے مختلف ادوار میں کمیشن قائم کیا تھا لیکن یہ نام نہاد کمشن ہر دور میں ہماری آواز کو ان سنی کر دیتے اور نامناسب رویہ اور طرز عمل اختیار کرتے ہیں جو نہایت تشویشناک ہے۔
لا پتہ افراد کی سماعت کے دوران لواحقین سے نامناسب رویہ اختیار کیا گیا جس سے ثابت ہو گیا کہ حکومت پاکستان لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے سنجیدہ نہیں ہے ہم نے آج لاپتہ افراد کے لیے کمیشن کے رویے کے خلاف خلاف احتجاجی کیمپ قائم کیا ہے ہم گزارش کرتے ہیں کہ وزیراعظم پاکستان عمران خان سے کہ لاپتہ افراد کو بازیاب کرنے کا جو سلسلہ شروع کیا ہے وہ جاری رکھا جائے۔
جو کمیشن قائم کیا گیا ہے اس میں شامل شرکاء انسانی ہمدردی کی بنیاد پر لاپتہ افراد کے لواحقین کو سنیں اور ان کے پیاروں کو بازیاب کروائیں۔
یہ بھی پڑھیں: وزیرِ اعظم عمران خان کی زیرِ صدارت وفاقی کابینہ اجلاس 16 فروری کو ہوگا