وطنِ عزیز پاکستان میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور قتل کے واقعات ہر گزرتے روز کے ساتھ بڑھ رہے ہیں جبکہ قصور میں زینب نامی معصوم بچی سے ایسے واقعات کو عوام کی توجہ حاصل ہوئی جس کے نام کی مناسبت سے وفاقی حکومت نے زینب الرٹ بل بھی منظور کیا ہے۔
حال ہی میں کراچی میں 5 سالہ بچی مروہ کی سوختہ لاش برآمد ہوئی جس کے ساتھ جنسی زیادتی اور قتل کا انکشاف ہوا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ قصور سے لے کر شہرِ قائد تک ملک کا کوئی بھی شہر ہمارے بچوں کیلئے محفوظ نہیں۔
سوال یہ ہے کہ زینب الرٹ بل کی منظوری اور بچوں کیلئے ایپ کی تیاری جیسے اقدامات سے عوام کو کیا فائدہ پہنچ رہا ہے؟ ملک بھر میں ایسے کتنے ہی واقعات رونما ہوتے ہیں جن کی رپورٹ بھی نہیں کی جاتی۔ اس تناظر میں پاکستانی معاشرہ اپنے بچوں کے تحفظ کیلئے کیا کرے۔
آئیے سب سے پہلے بچوں کے ساتھ زیادتی اور قتل کے ماضی کے واقعات کا ایک مختصر جائزہ لیتے ہیں جس کے بعد زینب الرٹ بل اور دیگر معاملات پر روشنی ڈالیں گے تاکہ یہ علم ہوسکے کہ قوم کے مستقبل ہمارے بچوں کے تحفظ کیلئے کیا کیا اقدامات اٹھائے جاسکتے ہیں۔
ماضی کے واقعات اور سرِ عام پھانسی کا مطالبہ
مروہ نامی بچی کے ساتھ کراچی میں جنسی زیادتی اور قتل کا واقعہ رواں ہفتے پیش آیا جس کے بعد یہ مطالبہ زور پکڑ گیا ہے کہ جو انسانیت کے دشمن ایسے جرائم میں ملوث ہیں انہیں صرف پھانسی کی سزا دینا کافی نہیں ہے۔
تحریکِ انصاف کے رکنِ قومی اسمبلی عامر لیاقت حسین کے مطابق وزیرِ اعظم عمران خان سرِ عام پھانسی پر قانون سازی کے حق میں ہیں جبکہ کراچی کی مروہ اور قصور کی زینب کے ساتھ ساتھ دیگر بے شمار واقعات ہوئے۔
سندھ میں خیر پور کے تعلقہ ٹھری میر واہ میں ایک ریٹائرڈ اسکول ماسٹر نے نوعمر بچے سے بدفعلی کی۔ کراچی کے علاقے لانڈھی میں 13 سالہ بچی سے مسلسل جنسی زیادتی کی گئی جس کے باعث وہ رواں برس اگست کے دوران حاملہ ہوگئی۔
چارسدہ میں 7 سالہ بچے سے زیادتی کرنے والے ملزم کو رواں برس اگست میں ہی گرفتار کیا گیا۔ بچے کے ساتھ اجتماعی زیادتی ہوئی جس پر مدثر نامی ملزم کو گرفتار کیا گیا۔ جنسی زیادتی کے بڑھتے ہوئے واقعات کے تناظر میں اداکارہ اقراء عزیز ، اُشنا شاہ اور دیگر اداکاروں نے ایسے ملزمان کو سرِ عام پھانسی دینے کا مطالبہ کیا ہے۔
رحیم یار خان میں ایک معلم کو کمسن طالبہ کے ساتھ جنسی زیادتی کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ مدرسوں میں لڑکیوں کے ساتھ ساتھ دینی علم حاصل کرنے والے بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی۔
رواں برس ہی جولائی کے دوران ریٹائرڈاسکول ماسٹر سارنگ شر کو گرفتار کیا گیا جس کی 8 سالہ بچے کے ساتھ بد فعلی کی ویڈیوز اور تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھیں۔ سارنگ شر پر 130 سے زائد بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے الزامات عائد ہیں۔ یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے سرِ عام پھانسی کا مطالبہ ظلم پر مبنی نظر نہیں آتا۔
جنسی زیادتی کے اعدادوشمار اور عوامی ردِ عمل
ایک غیر سرکاری رپورٹ کے مطابق ہر روز پاکستان میں 12 بچوں کو جنسی زیادتی اور تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے جس میں دیہی علاقے سرِ فہرست ہیں جہاں ایسے واقعات رپورٹ بھی نہیں کیے جاتے۔ سن 2019ء کے دوران پاکستان میں کمسن بچے بچیوں سے جنسی زیادتی اور تشدد کے 4000 واقعات رپورٹ ہوئے۔
پاکستانی معاشرے میں عموماً بچوں کے ساتھ ہونے والی جنسی زیادتی کے واقعات کی رپورٹ درج کرانا تو دور کی بات، اگر بڑوں کے ساتھ بھی ایسی کوئی بات ہو جائے تو اسے چھپایا جاتا ہے تاہم گزشتہ برس ایک بچے کو قصور میں جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا جس کے بعد اسے قتل کردیا گیا۔
آٹھ سالہ اس بچے کی والدہ نے کہا کہ میرے بیٹے کے ساتھ جس نے جنسی زیادتی کی اور اسے قتل کر ڈالا اگر اسے جلا کر اس کا جسم بھسم بھی کرڈالوں تو میری روح سکون نہیں پا سکے گی، نہ ہی میں اسے کبھی معاف کرسکتی ہوں۔ یقینی طور پر یہ انتہائی بڑا سانحہ ہوتا ہے جس پر معافی مظلوموں کے ساتھ ظلم بھی قرار دی جاسکتی ہے۔
گزشتہ برس 2019ء کے ابتدائی 6 ماہ میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے 1 ہزار 300 سے زائد کیسز رپورٹ ہوئے۔ ایک تکلیف دہ حقیقت یہ ہے کہ کیسز رپورٹ نہ کرنے کی وجوہات میں متاثرہ بچوں کے قریبی رشتہ داروں، پڑوسیوں یا جاننے والے افراد کا ملوث ہونا بھی شامل ہے۔
زینب الرٹ بل
جب قصور میں زینب انصاری نامی کمسن بچی کے ساتھ جنسی زیادتی اور قتل کا واقعہ پیش آیا تو اس پر انسانیت کانپ کر رہ گئی، بچی کے والد نے بارہا مطالبہ کیا کہ زینب کے قاتل کو سرِ عام پھانسی دی جائے لیکن یہ مطالبہ پورا نہ ہوسکا۔ عمران نامی درندہ صفت مجرم کو پھانسی تو دی گئی لیکن وہ سرِ عام نہیں تھی۔
مقتولہ زینب انصاری کے نام سے منسوب زینب الرٹ بل کی منظوری قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق میں گزشتہ برس اکتوبر میں دی گئی۔ بعد ازاں یہ بل قومی اسمبلی اور سینیٹ سے بھی منظور ہوگیا۔ سینیٹ نے رواں برس 4 مارچ کو زینب الرٹ بل منظور کیا جس پر 19 مارچ کو صدرِ مملکت نے دستخط کردئیے جو آج ایک قانون ہے۔
الرٹ بل کے مطابق بچوں سے جنسی زیادتی میں ملوث افراد کو 10 سے 14 سال تک قید کی سزا سنائی جاسکتی ہے۔ بل کے تحت ایک ہیلپ لائن قائم کرنے کا وعدہ کیا گیا جس پر بچوں کی گمشدگی اور اغواء کے معاملات فوری طور پر رپورٹ کیے جاسکیں گے تاکہ پولیس فوری کارروائی کرے۔
اسٹیٹ آف دی آرٹ زینب الرٹ موبائل ایپ
رواں برس مارچ کے دوران ہی حکومت نے اسٹیٹ آف دی آرٹ زینب الرٹ موبائل ایپ کا باقاعدہ آغاز کیا۔ 10 مارچ کو آئی جی سندھ مشتاق احمد مہر نے ایپ کا افتتاح کیا۔
آئی جی سندھ مشتاق مہر نے امید ظاہر کی کہ جلد ہی زینب الرٹ سسٹم میں ہم ایسی مزید ایپس شامل کریں گے جو مجرموں کی شناخت میں مدد دیں۔ چہرے کی پہچان، مشین لرننگ اور مصنوعی ذہانت کا بھی استعمال کیا جائے گا۔
جرائم کے خلاف مؤثر حکمتِ عملی ضروری
من حیث القوم صرف اور صرف حکومتی اقدامات پر انحصار کی بجائے ہمیں چاہئے کہ ایک مؤثر حکمتِ عملی اپنائیں جس کے تحت ہمارے بچے جنسی زیادتی کا شکار اور قتل ہونے سے محفوظ رہیں۔
کوئی شخص بچے کا رشتہ دار ہو یا معلم، بلا روک ٹوک اور بے وجہ کسی کو بچوں تک رسائی نہیں ہونی چاہئے۔ عموماً دیکھا گیا ہےکہ والدین بچوں کو اسکول میں داخل کروا کر اپنے فرائض سے سبکدوش ہوجاتے ہیں، یہ انتہائی خطرناک عمل ہے۔
بچوں کو جنسی زیادتی اور قتل سے بچانے کیلئے والدین کو پہلے خود علم حاصل کرنا ہوگا اور اپنے بچوں کو گڈ ٹچ اور بیڈ ٹچ یعنی اچھی نیت اور بری نیت سے چھونے کا فرق سمجھانا ہوگا اور بچوں کی پل پل کی خبر رکھنا ہوگی تاکہ کوئی بھی جرائم پیشہ یا بد خصلت شخص ہمارے بچوں کو کوئی نقصان نہ پہنچا سکے۔