قومی اسمبلی اجلاس، وزیر اعظم کیخلاف تحریکِ عدم اعتماد کب پیش ہوگی؟

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

قومی اسمبلی اجلاس، وزیر اعظم کیخلاف تحریکِ عدم اعتماد کب پیش ہوگی؟
قومی اسمبلی اجلاس، وزیر اعظم کیخلاف تحریکِ عدم اعتماد کب پیش ہوگی؟

پاکستان تحریکِ انصاف نے 2018 کے عام انتخابات کے بعد سے مسلسل مختلف سیاسی بحرانوں کا سامنا کیا ہے جس کی وجہ اتحادیوں کی بیساکھیوں پر ڈولتی ہوئی مخلوط حکومت اور وفاقی وزراء اور مشیروں کے بیانات بتائے جاتے ہیں۔

رواں ماہ کے آغاز میں وزیر اعظم کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد جمع کرائے جانے کے بعد سے اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر پر دباؤ تھا کہ وزیر اعظم کو اقتدار سے محروم کرنے کیلئے قومی اسمبلی کا اجلاس جلد سے جلد بلوائیں جو طلب کر لیا گیا ہے۔ 

قومی اسمبلی کا اجلاس کب ہوگا؟

اسد قیصر کی زیر صدارت قومی اسمبلی کا 41واں اجلاس 25مارچ کی صبح 11بجے طلب کیا گیا ہے۔ اپوزیشن کی ریکوزیشن پر یہ اجلاس آئینِ پاکستان کی دفعہ 54 (3) اور 254 کے تحت اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے طلب کیا گیا۔

اپوزیشن رہنماؤں کا کہنا ہے کہ عمران خان اراکین کی اکثریت کا اعتماد کھو چکے جبکہ پی ٹی آئی حکومت اخلاقی طور پر تحلیل بھی ہوگئی ہے۔ ہم تو جمہوریت کی بحالی کی طرف جا رہے ہیں۔ 

نمبر گیم اور سادہ اکثریت

آئین کے مطابق وزیر اعظم عمران خان کو عہدے سے ہٹانے کیلئے اپوزیشن کو قومی اسمبلی کے اراکین کی سادہ اکثریت درکار ہے جہاں نمبر گیم کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ اپوزیشن اور حکومت دونوں ہی دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ مطلوبہ تعداد رکھتے ہیں۔

قومی اسمبلی میں تحریکِ انصاف، پیپلز پارٹی اور ن لیگ سمیت تمام سیاسی جماعتوں کے اراکین کی مجموعی تعداد 342 بنتی ہے جس پر سادہ اکثریت 172 اراکین بنتے ہیں جبکہ وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کی کارروائی آئین کے تحت ہوگی۔

آئین کیا کہتا ہے؟

ماہرِ قانون قاضی مبین کا کہنا ہے کہ تحریکِ عدم اعتماد کی کارروائی آئین کی دفعہ 95 اور قومی اسمبلی کے رولز آف بزنس 2007 کے رول 37 کے تحت ہوا کرتی ہے۔ تحریک پر 3 روز سے قبل اور 7 روز کے بعد ووٹنگ نہیں کی جاسکتی۔

یعنی تحریکِ عدم اعتماد پیش کیے جانے کے بعد 3 سے 7 دن کے عرصے میں ووٹنگ ہوسکتی ہے۔ ووٹنگ سے قبل اور بعد میں طویل آئینی طریقہ اپنایا جاتا ہے۔

انتخابات اور پارلیمان پر نظر رکھنے والے ادارے پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال  کہتے ہیں کہ تحریکِ عدم اعتماد جمع ہونے کے بعد اجلاس 14روز کے اندر جب بھی بلایا جائے، پہلے روز کے ایجنڈے پر تحریکِ عدم اعتماد بھی شامل ہوتی ہے۔ 

احمد بلال کے مطابق حزبِ اختلاف قرارداد ایوان میں پیش کردے تو اسپیکر پر لازم ہے کہ ضابطے کے تحت کارروائی یقینی بنائے اور ووٹنگ کرائی جائے۔ اگر قرارداد کے حق میں زیادہ ووٹ آجائیں تو قراردا پر بحث کیلئے 3 سے 4روز مقرر کیے جاتے ہیں۔

وزیرِ اطلاعات کا بیان

وفاقی وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ 25 مارچ کو قومی اسمبلی اجلاس زیادہ دیر نہیں چلے گا کیونکہ قومی اسمبلی رکن کی وفات پر فاتحہ خوانی ہوتی ہے اور پھر قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی ہوجاتا ہے، تاہم احمد بلال اس سے اتفاق نہیں کرتے۔

پلڈاٹ کے سربراہ نے کہا کہ بلاشبہ رکنِ قومی اسمبلی کی وفات پر اجلاس فاتحہ خوانی کے بعد ملتوی ہوجاتا ہے، تاہم اسمبلی قواعد میں اس کا ذکر نہیں۔ اسپیکر چاہے تو فاتحہ کے بعد اجلاس جاری رکھ سکتا ہے۔ آئین اسے پابند کرتا ہے کہ وہ 7روز میں رائے شماری کرائے۔

تحریکِ عدم اعتماد کب پیش ہوگی؟

حکومت نے منحرف اراکین کی ہارس ٹریڈنگ سے بچنے کیلئے سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کر رکھا ہے جس میں عدالتِ عظمیٰ سے تشریح طلب کی گئی ہے کہ آئین کی شق 63 اے کیا کہتی ہے۔ احمد بلال کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ تشریح کرسکتی ہے، ترمیم نہیں۔

اس اعتبار سے دیکھا جائے تو تحریکِ عدم اعتماد 25 مارچ کو ہی پیش کیے جانے کا قوی امکان ہے۔ اگر اجلاس ملتوی بھی کردیا جائے تو حکومت اس معاملے کو زیادہ طول نہیں دے سکتی اور اگلے 7روز یعنی اپریل کے آغاز میں ہی عدم اعتماد پر رائے شماری متوقع ہے۔ 

Related Posts