گندم کا بحران اور آٹے سمیت دیگر اشیاء کی بڑھتی ہوئی قیمتیں، عوام کہاں جائیں؟

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گندم کا بحران اور آٹے سمیت دیگر اشیاء کی بڑھتی ہوئی قیمتیں، عوام کہاں جائیں؟
گندم کا بحران اور آٹے سمیت دیگر اشیاء کی بڑھتی ہوئی قیمتیں، عوام کہاں جائیں؟

گندم کو دُنیا بھر میں خوراک کا ایک اہم جزو سمجھا جاتا ہے، بالخصوص پاکستان میں کم و بیش 99 فیصد سے زائد شہری گندم کے آٹے سے بنی ہوئی روٹی کو ہر روز اپنی خوراک کا حصہ ضرور بناتے ہیں۔

آج کراچی سمیت ملک کے متعدد شہروں میں گندم اور اس کا آٹا مہنگا ہوگیا ہے، دالیں، سبزیاں، پھل اور دیگر اشیائے خوردونوش کی قیمتیں بھی آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ ایسے میں وہ عوام کہاں جائیں جو کھانے پینے کے ان لوازمات کے بغیر زندگی کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔

سندھ حکومت نے آج ہی 15 سے 20 اکتوبر تک گندم جاری کرنے کا اعلان کیا ہے۔آئیے پاکستان بھر میں جاری مہنگائی کے طوفان کا تجزیہ کرتے ہیں اور یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان تمام مسائل کا حل کیا ہے؟

اشیائے ضروریہ کی موجودہ قیمتیں

درآمد کی گئی سبزیوں، آٹے اور چینی سے عوام کو ریلیف میسر نہیں آیا کیونکہ اشیائے ضروریہ کی قیمتیں بہت تیزی سے بڑھ رہی ہیں اور کھانے پینے کی چیزیں عوام کی پہنچ سے دور ہوتی جارہی ہیں۔

ٹماٹر کی قیمت 150 سے 160 روپے فی کلو سے بڑھ کر 200 روپے کلو تک جا پہنچی ہے جبکہ پیاز کی قیمت 50 سے 60 روپے فی کلو سے 80 روپے فی کلو تک جا پہنچی ہیں۔ سبزیاں اور دالیں مہنگے داموں فروخت ہو رہی ہیں۔

درآمدی ادرک 600 روپے فی کلو فروخت ہو رہی ہے۔ دوسری جانب حکومت نے یوٹیلٹی اسٹورز پر چینی 9 روپے فی کلو مہنگی کرنے کی تجویز دے دی ہے۔ چینی کی قیمت 68 روپے سے بڑھا کر 77 روپے کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔

یوٹیلٹی اسٹورز پر آٹے کا 20 کلو کے تھیلے کی قیمت 60 روپے بڑھا کر 860 روپے کرنے کی تجویز ہے جبکہ گھی کی قیمت 170 روپے سے بڑھا کر 180 روپے کی جاسکتی ہے۔ 

چینی اور گندم بحران پر وزیرِ اعظم عمران خان کی ہدایات 

ماہِ ستمبر کے دوران 22 تاریخ کو وزیرِ اعظم عمران خان نے ملک بھر میں گندم اور چینی کی وافر مقدار میں دستیابی اور قیمتوں کو مناسب رکھنے کیلئے ہدایات جاری کیں۔ گندم اور چینی بحران پر وزیرِ اعظم کو اسی روز بریفنگ دی گئی۔

بریفنگ کے دوران وزیرِ اعظم عمران خان کو بتایا گیا کہ نجی شعبے نے اب تک 4 لاکھ میٹرک ٹن گندم درآمد کی ہے جبکہ مزید 10 لاکھ ٹن گندم اکتوبر کے دوران ملک میں پہنچے گی۔ سرکاری سطح پر 15 لاکھ میٹرک ٹن گندم کی درآمد جاری ہے۔

بتایا گیا کہ 3 لاکھ 30 ہزار میٹرک ٹن گندم کا ٹیندر کیا گیا، چینی کی درآمد جاری ہے، شوگر ملز 15 نومبر تک کرشنگ شروع کرنے کی پابند ہیں۔ تاخیر کی گئی تو 50 لاکھ یومیہ جرمانہ ہوگا۔

شخ رشید احمد نے 12 ستمبر کو بیان دیا کہ گندم اور چینی کے جہاز جلد پاکستان میں آجائیں گے اور قیمتیں کم ہوں گی۔ عوام تسلی رکھیں۔ قبل ازیں 26 اگست کو 60 ہزار میٹرک ٹن گندم لے کر پہلا جہاز کراچی پورٹ پر لنگر انداز ہوا۔

مجموعی طور پر گندم کے 9 بحری جہاز بک کروائے گئے جس پر چیئرمین اجناس ایسوسی ایشن مزمل چیپل نے کہا کہ گندم کی قیمتوں میں کمی متوقع ہے۔ رواں برس 1 سے ڈیڑھ ملین میٹرک ٹن گندم کم ہے۔ جس پر 6 لاکھ ٹ درآمدی معاہدے ہوچکے ہیں۔ 

گندم بحران پر صوبائی و وفاقی حکومت کی رسہ کشی

گزشتہ ماہ 24 ستمبر کو وفاقی حکومت نے وزیرِ اعلیٰ سندھ کو خط لکھا جس میں گندم کی بین الصوبائی ترسیل کی راہ میں حائل پابندیاں ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا گیا کہ گندم کے نئے ذخیرے کی بلا روک ٹوک ترسیل ممکن بنائی جائے۔

بین الصوبائی ترسیل کے حوالے سے اہم بات یہ ہے کہ سندھ حکومت نے گندم کی پنجاب تک ترسیل اور ٹرانسپورٹیشن پر پابندیاں عائد کررکھی ہیں۔ خط کے مطابق پابندیوں کے باعث آٹے اور گندم کی براہِ راست متاثر ہوتی ہے جبکہ آئینِ پاکستان کا آڑٹیکل 151 آزادانہ تجارتی نقل و حمل کے حق میں ہے۔ 

چوری، اسمگلنگ اور سندھ حکومت 

پنجاب اور سندھ کی صوبائی سرحد سے ہزاروں من گندم اسمگل ہوئی جس کا نوٹس لیتے ہوئے وزیرِ اعلیٰ سندھ نے 18 اگست کو کمشنر سکھر اور ڈپٹی کمشنر گھوٹکی کو طلب کیا۔ صوبائی سرحد سے ہر روز ہزاروں من گندم اسمگل ہونے کا انکشاف بھی ہوا۔

رواں برس 18 اگست کے روز ہی وزیرِ اعلیٰ سندھ کو صوبے میں اربوں روپے گندم کی خوردبرد پر تفتیش کیلئے نیب طلب کیا گیا۔ ان کے بیان پر نیب کی طرف سے اطمینان کا اظہار سامنے آیا۔

وفاقی وزیرِ غذائی تحفظ فخر امام کے مطابق پاکستان گندم کی پیداوار میں دُنیا کا 8واں بڑا ملک ہے۔ گزشتہ برس کے مقابلے میں رواں برس 26 لاکھ ٹن گندم زیادہ خریدی گئی۔ سندھ کے پاس گندم کا زیادہ ذخیرہ موجود ہے، ہمارا مطالبہ ہے کہ گندم فوری ریلیز کی جائے۔ 

ادارۂ شماریات کی رپورٹ 

رواں ماہ ادارۂ شماریات کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ ستمبر کے آخری ہفتے میں پیاز، ٹماٹر، چینی، آٹا اور مرغی کے گوشت سمیت 24 اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا۔

جولائی سے ستمبر کے دوران شرحِ مہنگائی 8.85 فیصد تھی جو 9 اعشاریہ 4 فیصد ہو گئی۔ ٹماٹر کی قیمت میں 40 جبکہ دیگر سبزیوں کی قیمت میں 35 فیصد اضافہ نوٹ کیا گیا۔

ادارۂ شماریات کی رپورٹ کے مطابق ٹماٹر کی قیمت میں 9 روپے 88 پیسے فی کلو اضافہ ہوا اور اوسط قیمت 110 روپے 22 پیسے تک جا پہنچی جبکہ پیاز کی اوسط قیمت 11 روپے 55 پیسے بڑھ گئی۔

دال مونگ کی قیمت میں 3 روپے 19 پیسے فی کلو کا اضافہ ہوا، اوسط قیمت 243 روپے 50 پیسے فی کلو رہی۔ انڈوں کی قیمت میں 4 روپے فی درجن کا اضافہ ہوا۔ مزید جن اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ان میں دال چنا، دال مسور، گھی، گڑ، چاول اورخشک دودھ شامل ہیں۔ 

مسائل کا حل کیا ہے؟

یہ مسئلہ عوام کا نہیں بلکہ سراسرحکومت کا ہے کہ وہ اشیائے ضروریہ کی بڑھتی ہوئی قیمتوں پر قابو پائے جس کیلئے سندھ حکومت اور وفاقی حکومت کا اشتراک بعض معاملات میں بے حد ضروری ہے۔

ناجائز منافع خوروں، اسمگلرز اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کارروائی وقت کا تقاضا ہے کیونکہ اگر آج ان مسائل پر قابو نہ پایا گیا تو آئندہ مہنگائی کے طوفان پر قابو پانا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن بھی ہوسکتا ہے۔

کابینہ اراکین ہوں یا وفاقی وزراء یا پھر کوئی اور اہم شخصیت مصنوعی مہنگائی کے جرم میں ملوث پائی جائے، اس کے خلاف سخت سے سخت کارروائی ضروری ہے۔ 

Related Posts