محبت کا سفیر، عاجزی کا پیکر: پوپ فرانسس کا آخری سفر، انتقال کے بعد تصاویر جاری

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

Pope Francis Photos released after the death
x.com

ویٹی کن سٹی کی عظیم و مقدس فضا میں جنم لینے والا ایک نرالا چراغ جس نے دنیا کو محبت، معافی اور انسانیت کا پیغام دیا، 21 اپریل 2025ہمیشہ کے لیے بجھ گیا۔

پوپ فرانسس جنہیں دنیا صرف ایک مذہبی پیشوا نہیں بلکہ ایک عالمی ضمیر کے طور پر جانتی ہے، اپنی سادہ زندگی، پاکیزہ افکار، اور بین المذاہب ہم آہنگی کے لیے لازوال جدوجہد کی بدولت تاریخ میں امر ہوگئے۔

pope francis

پوپ فرانسس کا اصل نام جورج ماریو برگولیو” تھا۔ وہ 17 دسمبر 1936 کو ارجنٹینا کے شہر بیونس آئرس میں پیدا ہوئے۔ اطالوی نژاد ہونے کے باوجود ان کی پرورش ایک متوسط گھرانے میں ہوئی، جہاں سادگی، محنت، اور خدمت کا درس ملا۔

ابتدائی تعلیم کے بعد انہوں نے کیمیکل انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کی لیکن جلد ہی روحانیت کی طرف راغب ہو گئے۔ 1958 میں یسوعی جماعت میں شمولیت اختیار کی، جو کیتھولک چرچ کا ایک اصلاحی اور فکری گروہ ہے۔

ان کی زندگی کا ہر لمحہ خدمت اور فروتنی سے عبارت رہا۔ وہ نہ صرف علم میں گہرے تھے، بلکہ روحانی بیداری کا ایسا روشن مینار تھے جس کی روشنی نے لاکھوں دلوں کو منور کیا۔

pope francis

جورج ماریو برگولیو 13 مارچ 2013 کو جب کیتھولک دنیا کے 266ویں پوپ منتخب ہوئے تو یہ کئی لحاظ سے ایک تاریخی لمحہ تھا۔ وہ پہلے لاطینی امریکی، پہلے یسوعی اور پہلے غیر یورپی پوپ تھے جنہوں نے “فرانسس” کا نام اختیار کیا، یہ نام انہوں نے سینٹ فرانسس آف اسیسی سے متاثر ہو کر چُنا، جو سادگی، امن اور قدرت سے محبت کے لیے مشہور تھے۔

پوپ فرانسس کی زندگی کا سب سے نمایاں پہلو ان کی سادگی تھی۔ وہ ویٹی کن کے شاہانہ اپارٹمنٹ کی بجائے ایک سادہ رہائش میں رہتے، خود کھانا لیتے، عام گاڑی میں سفر کرتے، اور غریبوں کے درمیان اپنا وقت گزارتے۔ ان کا ماننا تھا کہ چرچ کو صرف عبادت کا مرکز نہیں بلکہ مظلوموں، غریبوں اور بے سہارا لوگوں کی پناہ گاہ ہونا چاہیے۔

pope francis

پوپ فرانسس نے ہمیشہ مسلمانوں، یہودیوں، ہندوؤں، بدھ مت کے ماننے والوں سمیت تمام مذاہب سے احترام، امن اور بھائی چارے کے رشتے کو فروغ دیا۔ ان کے دور میں ویٹی کن سٹی نے بارہا اسلامی دنیا کے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے پاپائیت کو صرف ایک مذہبی عہدہ نہیں بلکہ ایک اخلاقی فریضہ بنا دیا۔

پوپ فرانسس نے جدید دور کے چیلنجز کا کھلے دل سے سامنا کیا۔ ہم جنس پرستی، طلاق، ماحولیاتی بحران، پناہ گزینوں کی حالت زار، اور غربت جیسے موضوعات پر ان کے بیانات نے چرچ کے نظریات کو نئی جہت دی۔ وہ ایک جدید، فکر انگیز اور مہربان رہنما تھے جنہوں نے سخت گیر رویوں کی بجائے نرم دلی اور فہم و فراست کو ترجیح دی۔

دنیا بھر کی اقلیتوں، خصوصاً مسیحیوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے مظالم پر انہوں نے ہمیشہ آواز بلند کی۔ پاکستان، عراق، شام، افریقہ اور دیگر خطوں میں مسیحیوں کے قتل عام اور جبری ہجرت پر ان کے جذباتی بیانات نے دنیا کو جھنجھوڑا۔ ان کے دل میں ہر مظلوم کے لیے درد تھا، خواہ وہ کسی بھی مذہب یا رنگ و نسل سے تعلق رکھتا ہو۔

pope francis

آخری دنوں میں ان کی صحت کمزور ہوتی گئی لیکن ان کی دعائیں، باتیں، اور مسکراہٹیں ویٹی کن کے در و دیوار پر نقش ہو گئیں۔ 88 سال کی عمر میں وہ اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئے، مگر ان کی تعلیمات رہتی دنیا تک چرچ کی دیواروں، دلوں کے کتب خانوں اور انسانیت کی تاریخ میں محفوظ رہیں گی۔

پوپ فرانسس کی وفات کے بعد کیتھولک دنیا میں سوال گونج رہا ہے کہ اگلا پوپ کون؟ کئی معتبر نام زیرِ غور ہیں، جن میں افریقی، یورپی اور ایشیائی کارڈینلز شامل ہیں۔ کیا پاکستان سے کارڈینل جوزف کوٹس بھی اس فہرست میں شامل ہو سکتے ہیں؟ اگرچہ امکانات محدود ہیں مگر یہ سوال خود ایک تاریخی امید بن چکا ہے۔

pope francis

پوپ فرانسس ایک چرچ لیڈر سے بڑھ کر انسانیت کے سفیر تھے۔ وہ ان آوازوں میں سے ایک تھے جو جھکے بغیر بلند ہوئیں، جنہوں نے طاقتوروں سے ڈر کر سچ نہیں چھپایا، جنہوں نے مظلوم کی آنکھ سے آنسو صاف کیا، اور انسان کو انسان سے جوڑنے کا کام کیا۔دنیا اُن کی سادگی، عاجزی، اور محبت کو ہمیشہ یاد رکھے گی۔

Related Posts