وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں پولیس کی مبینہ ملی بھگت سے ایک مالدار ملزم سے بلیک میلرز کے ایک گروہ نے 80 لاکھ روپے وصول کیے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق اسلام آباد کے تھانہ کراچی کمپنی میں جرم ثابت ہونے کے باوجود زنا بالرضا کی بجائے زنا بالجبر کی دفعات لگائی گئیں۔ صائمہ نامی متاثرہ خاتون نے گزشتہ ماہ 7 ستمبر کو تھانہ کراچی کمپنی میں درخواست دی کہ مجھے ایک ملزم نے گن پوائنٹ پر 2 بار جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا۔
درخواست میں کوئی تفصیل نہ ہونے کے باوجود پولیس نے چند گھنٹوں میں ناصر عباس نامی ملزم کو گرفتار کر لیا۔ تفتیشی آفیسر نے کئی گھنٹے تک ناصر عباسی کے سیاسی پس منظر اور مالی حیثیت کی وجہ سے نجی گاڑی میں گھماتے ہوئے اُس سے مبینہ سودے بازی کی۔
میڈیا رپورٹ منظرِ عام پر آنے کے بعد پولیس نے مجبوراً گرفتاری کا اعتراف کیا لیکن تھانے میں بھی زنا بالرضا اور زنا بالجبر کی دفعات پر سودے بازی جاری رکھی گئی۔ حنا نامی بدنامِ زمانہ خاتون اور چند دیگر پیشہ ور افراد راضی نامے کیلئے 5 کروڑ کا مطالبہ کرتے رہے۔
جب ایس ایس پی صدر سرفراز ورک نے نوٹس لیا تو پیشہ ور گروہ منظرِ عام سے غائب ہوگیا۔ ناصر عباس نے متعلقہ اے ایس پی کو غیر جانبدارانہ انکوائری کی درخواست دی جو پولیس کی روایتی سستی کی نذر ہو گئی۔ ملزم ناصر عباس کو جسمانی ریمانڈ کے بعد جیل بھیج دیاگیا۔
پولیس نے انکوائری میں بلا وجہ تاخیر کی جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بلیک میلر گروہ نے 2 بار ناصر عباس کے لواحقین سے رابطہ کیا اور 2 روز قبل 80 لاکھ روپے میں راضی نامہ ہوگیا۔ قانون کے مطابق صائمہ نامی متاثرہ خاتون اور حنا نامی مڈل ویمن کو بھی گرفتار ہونا چاہئے تھا، تاہم ایسا نہیں ہوا۔
ناصر عباس کے لواحقین نے وفاقی پولیس کی کارکردگی پر متعدد سوالات اٹھائے ہیں جن میں سے سب سے اہم سوال ی ہے کہ ایک عام مالدار آدمی ذلت و رسوائی اور جگ ہنسائی سے بچنے کیلئے رشوت دینے کے علاوہ اور کیا کر سکتا ہے؟ ملزم کے لواحقین نے حکامِ بالا سے انصاف کی اپیل کی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ملک انور پر محنت کشوں پر ظلم و ستم اور تشدد کا سنگین الزام